کالم

آئی ایم ایف ،بجٹ تیاریاں نئے ٹیکسز

وفاقی وزیر خزانہ اورنگزیب نے وفاقی بجٹ 2024-25 سات جون کو پیش کرنے کا اعلان کیا ہیے ۔ بجٹ پیش ہونے سے کئی ماہ قبل ایف بی آ ر اور وزارت خزانہ بجٹ کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ بجٹ پیش ہونے سے ایک روز قبل گزشتہ سال کا اکنامک سروے جاری کیا جاتا ہے جو گزرے ہوئے سال کی کارکردگی رپورٹ ہوتی ہے۔دوسرے روز وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد وزیر خزانہ قوم کے سامنے بجٹ پیش کرتے ہیں ۔ ایف بی آر بزنس کمیونٹی ٹیکس بار ایسوسی ایشنز اور عوام سے بجٹ تجاویز طلب کرتا ہے اور ان میں سے قابل قبول تجاویز کو بجٹ کا حصہ بنا لیا جاتا ہے ۔ بجٹ سیمینارز منعقد ہوتے ہیں ممتاز ماہرین معیشت اخبارات میں اپنی تجاویز دیتے ہیں۔ بجٹ کا ٹیکسیشن سے متعلق حصہ7 ایف بی آر میں تیار کیاجاتا ہیے جب کہ اخراجات والا حصہ وزارت خزانہ تیار کرتی ہیے ۔بجٹ کی تیاری میں ڈائریکٹوریٹ آف ریسرچ اینڈ سٹیٹسٹکس (ڈی آ ر ایس) بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بجٹ کے اعلان سے کئی ماہ قبل ہی بڑے ریونیو سپنرز شوگر ، سگریٹ ، سیمنٹ ، بیوریجز اور پٹرولیم پروڈکٹس کی گزشتہ پانچ سال کی پیداوار اور ٹیکسز کا جائزہ لیا جاتا ہے اس کے بعد ان میں ردوبدل کیا جاتا ہیے۔ مبینہ طور پر آئی ایم ایف کی ٹیم ایف بی آ ر میں ڈیرے جما لیتی ہے اور پاکستان کی معیشت اور ٹیکس کے نظام کو مانیٹر کرنا شروع کر دیتی ہے۔ آ ئی ایم ایف کا وفد قرضے کے 24 ویں پروگرام کے مزاکرات کے لیے پاکستان پہنچ چکا ہے۔ فنڈ نے موجودہ سیاسی عدم استحکام پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے معاہدے سے قبل فنڈ معیشت کے مزید کئی شعبوں بجلی گیس اور ٹیوب ویلز پر سبسڈیز کے خاتمے اور یونٹس کے ریٹس بڑھانے کی بات کر رہاہے۔ گزشتہ سال بھی حکومت نے آ ئی آیم ایف کے مطالبات کی تکمیل کرتے ہوئے ضمنی مالیاتی بل 2023 پاس کروایا تھا جس میں بہت سے ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکس لگائے گئے تھے ۔ آ ئی ایم ایف ٹیکس بیس بڑھانے کی بات کر رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے بھی کہ دیا ہے کہ اب ہر ایک کو ٹیکس دینا پڑے گا۔ مالیاتی فنڈ کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستانی معیشت کی گروتھ دوفیصدہے اور آ نے والے سال میں 3.7 فیصد تک جا سکتی ہے اس جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معیشت سنبھل رہی ہے مہنگائی کی شرح میں مسلسل کمی آ رہی ہیے اس وقت مہنگائی کی شرح 24.8 فیصد ہے جو اگلے سال12.7فیصد تک جا سکتی ہے۔ چونکہ پی ڈی ایم اور نگران حکومت نے آ ئی ایم ایف کی شرائط پر مکمل عملدرآمد کیا اس لیے فنڈ انتظامیہ دوبارہ پاکستان کو قرضے کے لیے رضامند نظر آ رہی ہے۔ مگر اس کے ساتھ قرضے کے معاہدے کےلئے سخت ترین شرائط کی ایک طویل لسٹ ہیے جس کے مطابق بجٹ میں مژید سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس عوام کو برداشت کرنا پڑیں گے ۔ اس وقت آ نے والے بجٹ کے بارے میں مختلف قسم کی افواہیں زیر گردش ہیں کوئی کہتا ہے کہ سرکاری ملازمین کی پینشن ختم کی جارہی ہے یہ انتہائی سخت اقدام ہوگا کیونکہ ساری عمر سرکار کی خدمت کرنے کے بعد بڑھاپے میں یہ ان کا آخری سہارا ہوتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کی عمر 65سال کی جا رہی ہے یہ تو حکومت کی مجبوری ہے کیونکہ حکومت کے خزانے میں ریٹائرمنٹ پر ملازمین کو ادائیگی کے لیے پیسے نہیں ۔ اس وقت مہنگائی نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے پنجاب حکومت نے روٹی سستی کرکے عوام دوست قدم اٹھایا ہے ۔ غریب آ دمی بہت تنگ ہیے عوام موجودہ حکومت سے بہت سی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں لگثری آ ئیٹمز پر ضرور ٹیکس لگائیں لیکن عام آ دمی کی ضروریات زندگی سستی کریں۔ اس وقت سرکاری ملازمین اور پینشنرز مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہیں ان کی تنخواہوں اور پینشن میں مہنگائی کی شرح کے برابر اضافہ کرنا ہوگا ۔ اس کے علاہ انکم ٹیکس سلیب بھی بڑھانا ہوگا۔ امید ہے کہ حکومت نئے بجٹ میں عوام کو ریلیف دے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے