کالم

آبی جارحیت یا ہماری بدانتظامی؟

برصغیر کی تقسیم کو 78 برس گزر چکے ہیں مگر آج بھی جب برسات کا موسم آتا ہے تو پاکستان میں ایک ہی بیانیہ گونجتا ہے: ”انڈیا نے پانی چھوڑ دیا، انڈیا کی آبی جارحیت شروع ہوگئی!”۔ عوام کو اس دعوے سے وقتی طور پر جذباتی تسلی مل جاتی ہے، لیکن حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔یہ ایک عام فہم بات ہے کہ مون سون کی بارشیں صرف پاکستان ہی میں نہیں ہوتیں بلکہ پورے خطے میں برستی ہیں۔ بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش میں بھی انہی بارشوں سے سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ جب وہاں کے بڑے ڈیم بھر جاتے ہیں تو پانی کو بہرحال چھوڑنا پڑتا ہے، ورنہ وہ خود ڈیم توڑ کر تباہی مچاتا ہے۔ پانی کو بہنے کے لیے راستہ چاہیے اور دریاؤں کا قدرتی بہاؤ پاکستان کی طرف ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ بھارت پانی بطور ”جارحیت” چھوڑتا ہے، حقیقت کے منافی ہے۔ وہاں بھی سیلاب آتا ہے، وہاں کی بستیاں ڈوبتی ہیں اور وہاں بھی نقصانات ہوتے ہیں۔اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان نے گزشتہ سات دہائیوں میں اس حقیقت کے مقابلے کے لیے کیا کیا؟ کیا ہم نے بڑے ذخائر اور ڈیم تعمیر کیے تاکہ سیلابی پانی کو محفوظ کیا جا سکے؟ کیا ہم نے اپنے شہروں اور دیہات کو جدید بندوں، پشتوں اور واٹر مینجمنٹ کے نظام سے محفوظ بنایا؟ جواب یہ ہے کہ نہیں!۔
ہماری ناکامی یہی ہے کہ ہم نے پانی کے ذخائر کی اہمیت کو نظرانداز کیا۔یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بھارت جب اپنے ڈیموں سے پانی چھوڑتا ہے تو پاکستان کو پیشگی اطلاع دیتا ہے۔ حالیہ واقعات میں بھی پاکستان کو باقاعدہ آگاہ کیا گیا۔ اس کے باوجود اگر سیلابی پانی ہمارے شہروں کو ڈبو دیتا ہے تو اس کی ذمہ داری بھارت پر نہیں بلکہ ہماری اپنی بدانتظامی اور غفلت پر عائد ہوتی ہے۔حالانکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہیں جو اپنے قیمتی پانی کو سب سے زیادہ ضائع کرتے ہیں۔ یہی پانی جو آج سیلاب بن کر بستیاں اجاڑتا ہے، اگر ڈیموں میں محفوظ کیا جائے تو یہ ہماری معیشت، زراعت اور توانائی کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتا ہے۔اسی تناظر میں کالا باغ ڈیم کی مثال سب سے اہم ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر کالا باغ ڈیم تعمیر ہو جاتا تو آج پاکستان میں سیلابی پانی کے بڑے حصے کو محفوظ کیا جا سکتا تھا۔ یہ ڈیم نہ صرف سیلابی تباہی کو کم کرتا بلکہ بجلی پیدا کرنے کا سب سے سستا ذریعہ ثابت ہوتا۔ اس کے بننے سے زراعت کو پانی ملتا، صنعت کو توانائی ملتی اور ملک کی معیشت میں استحکام آتا۔بدقسمتی سے کچھ سیاسی اور لسانی بنیادوں پر اس عظیم منصوبے کی مخالفت کی گئی۔ سندھ میں یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ڈیم بننے سے پانی کی کمی ہو جائے گی، خیبرپختونخوا میں یہ شوشہ چھوڑا گیا کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا، اور بلوچستان کو یہ تاثر دیا گیا کہ اسے کچھ نہیں ملے گا۔ حالانکہ یہ تمام خدشات محض سیاسی نعرے ہیں، جن کی نہ تو سائنسی بنیاد ہے اور نہ ہی عملی حقیقت۔ ماہرین بارہا یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ کالا باغ ڈیم تمام صوبوں کیلئے یکساں فائدہ مند ہے۔ یہ ڈیم صوبوں کے حصے کا پانی کم نہیں کرے گا بلکہ موجودہ پانی کو محفوظ کر کے ان کے حصے میں اضافہ کرے گا۔ نوشہرہ کے ڈوبنے کا خدشہ بھی محض ایک سیاسی پروپیگنڈہ ہے جس کی ماہرینِ ارضیات اور انجینئرنگ رپورٹس بارہا تردید کر چکی ہیں۔دراصل کچھ عناصر نے اپنے وقتی سیاسی مفاد، ذاتی انا اور صوبائی تعصبات کے لیے پاکستان کے مستقبل سے کھلواڑ کیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم توانائی بحران، پانی کی قلت اور ہر سال آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہیں۔ اگر کالا باغ ڈیم بروقت تعمیر ہو جاتا تو آج پاکستان کا نقشہ معاشی طور پر یکسر مختلف ہوتا۔قوم کو بار بار ”بھارت کی آبی جارحیت” کا چورن بیچنے کے بجائے ہمیں اپنی حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا۔مسئلہ بھارت نہیں، مسئلہ ہماری بدانتظامی، منصوبہ بندی کا فقدان اور قومی مفاد پر ذاتی سیاست کو ترجیح دینا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم کالا باغ سمیت دیگر بڑے ڈیموں کی تعمیر پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو آئندہ نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے: کیا ہم ہر سال سیلابی تباہیوں پر آنسو بہاتے رہیں گے یا مستقبل کے لیے جرات مندانہ فیصلے کر کے اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ پاکستان دیں گے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے