کالم

آخر کب تک بھےک مانگ کر کھاتے رہےں گے

ہمارے ہاں حکومتوں کی تبدےلی سے آسمان سے من و سلویٰ نہےں اترتا ۔تھانےدار کو بدل دےنے سے پولےس کا نظام تو وہےں رہتا ہے ۔ حرکتےں اور سوچ تو نہےں بدلتی ۔کےا کسی نئے تھانےدار کے آنے سے علاقہ جوا ،سٹے بازی ، عصمت فروشی ،سٹرےٹ کرائم ،منشےات فروشی اور بدمعاشی سے پاک ہو جاتا ہے ۔اسی طرح کسی اےس ڈی او کو ادھر ادھر کرنے سے بجلی چوری ختم ہو جاتی ہے ،اوور بلنگ کا خاتمہ ہو جاتا ہے ےا فےڈر ٹرپ کرنے بند ہو جاتے ہےں ۔ وطن عزےز پر قرضوں کے پہاڑ بننے کا اگر ماضی کے حوالے سے جائزہ لےں تو حکومتوں کا ےہی دستور رہا کہ پاکستان کے نام پر قرضے لئے گئے ،پھر بانٹے گئے ، حاکموں نے اپنے حوارےوں کے قرضے معاف کر دئےے اور ان کی جائےدادےں بےرون ملک بن گئےں ،ان کی اولادےں وہاں کی شہری بن گئےں ،ےہاں کی اشرافےہ کے بچے باہر ہےں اور ےہاں کے سرکاری و نےم سرکاری افسران کی دوہری شہرےتےں ہےں ۔ ےہ طرفہ تماشا ہے ےہاں تمام سےاسی پارٹےوں کی قےادتےں ہر انتخابی مہم کے دوران کشکول توڑنے کے دعوے کرتی اور اےک دوسرے کو بےرونی قرضوں مےں جکڑنے پر مورد الزام ٹھہراتی رہےں۔ان کے کشکول توڑنے اور آئی اےم اےف کے قرضوں پر تکےہ نہ کرنے کے اعلانات نقش بر آب ثابت ہوتے رہے اور ان حکومتوں کے وزرائے خزانہ قرضوں کے حصول کی خاطر کشکول اٹھائے آئی اےم اےف کے در دولت پر پہنچتے رہے ۔ےہی حال پی ٹی آئی کے نووارد سابقہ وزےر اعظم پاکستان عمران خان کا رہا ۔انتخاب سے قبل وہ بھی کہتے تھے کہ خود کشی کر لوں گا لےکن کشکول نہےں اٹھاﺅں گا ۔ 2018ءمےں جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو قرضے 29کھرب روپے سے کچھ زےادہ تھے ۔ےوں ساڑھے تےن سال مےں 23کھرب روپے کا اضافہ ہوا جو کل قرضوں کا 80فےصد ہے جو ملک کی جی ڈی پی کا 82فےصد بنتی ہے ۔پاکستان کی جی ڈی پی 347ارب ڈالر کی ہو گئی ہے ۔مالی سال 2018ءسے 2021ءتک پی ٹی آئی حکومت کو دس ارب ستر کروڑ ڈالر کا مجموعی سود ادا کرنا پڑا ۔پاکستان نے گزشتہ بےس سالوں مےں 112ارب ساٹھ کروڑ ڈالر حاصل کئے اس کے باوجود مالی سال 2001ءمےں پاکستان کے ذمے صرف37ارب بےس کروڑ ڈالر کے قرضے تھے ۔مالی سال 2021ءمےں غےر ملکی قرضوں مےں 228فےصد اضافہ کے ساتھ پاکستان پر 122ارب بےس کروڑ ڈالر کے قرضوں کا پہاڑ کھڑا ہو گےا ہے ۔پاکستان نے اصل زر تک کئی بار واپس کر رکھا ہے اس کے باوجود ہم دنےا کے مقروض ہےں ۔اب آئی اےم اےف کی جان لےوا شرائط کے ساتھ باندھنے کی ذمہ داری موجودہ حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے قرض کی نئی رقم کی وصولی سے پہلے بجلی گےس پٹرولےم مصنوعات اور اشےائے خوردنی کی قےمتوں مےں پے درپے اضافہ کر کے آئی اےم اےف کو اپنی تابعداری کا بھی ےقےن دلاےا اور اس کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے عوام کےلئے مہنگائی کے سونامی کو دعوت دے دی اب قرض کی نئی قسط کے ساتھ وصول ہونے والی آئی اےم اےف کی شرائط پر گےس کے نرخوں مےں بھی مزےد اضافہ حکومت کی مجبوری ہو گی جس کے بعد آنے والی مہنگائی کا سونامی بے وسےلہ عوام الناس کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر قبرستان کی جانب دھکےل دے گا ۔بلاشبہ قرضے ترقی ےافتہ ممالک بھی لےتے ہےں اور امرےکہ کو دنےا کا سب سے زےادہ مقروض ملک کہا جاتا ہے مگر ےہ قرضے پےداواری مقاصد پر صرف کئے جاتے ہےں ۔ زمےن مےں چھپے ہوئے معدنےات کے خزانے نکالنے ،زراعت کو ترقی دےنے ،سائنسی اور صنعتی مےدانوں مےں تحقےق کے ذرےعے نئی چےزےں سامنے لانے ،تےل نکالنے اور عام آدمی کے مفاد کےلئے ان کا استعمال کےا جاتا ہے لےکن جب حکمران نئے ذاتی طےاروں ،ہےلی کاپٹروں اور بڑی گاڑےوں کے دلدادہ ہوں تو پھر اےسے لئے گئے قرضوں کا نتےجہ خوفناک شکل مےں سامنے آتا ہے ۔ دکھائی اےسا دےتا ہے کہ کشکول اور وطن عزےز کے حکمرانوں کا ساتھ اور بندھن اتنی مضبوط بنےادوں پر استوار ہو چکا ہے کہ نہ تو ےہ چھوٹنے والا اور نہ ہی ےہ ٹوٹنے والا ہے ۔ےہی وجہ ہے کہ ہر حکمران اسے گزند پہنچانے مےں ناکام رہا ےا پھر ےہ کشکول کسی مافوق الفطرت قوت کے ہاتھوں کا عطا کردہ ہے جسے توڑنا انسانی اختےار سے باہر ہے ۔جادوی اثر کے حامل اس کشکول مےں بڑے بڑے چھےد ہو چکے ہےں جتنا بڑا قرض بھی اس مےں ڈالا جاتا ہے چشم زدن مےں غائب ہو جاتا ہے اور ہر لمحہ ھل من مزےد کی پکار کرتا دکھائی دےتا ہے ۔ ہمارے انشاءجی بھی ےہی صدا لگاتے کہ ”جس جھولی مےں سو چھےد ہوئے اس جھولی کا پھےلانا کےا“رخت سفر باندھ گئے لےکن ےہاں ان کے کہے پر عمل نہ ہوسکا ۔کہتے ہےں کہ اےک مہ جبےں نے اپنی شادی کےلئے اےک کڑی شرط رکھی کہ مےںاس مرد سے شادی کروں گی جو بھےک اور صدقہ خےرات کےلئے گلی گلی صدا لگا کر چھ مہےنے تک مےرا اور اپنا کاروبار حےات چلائے گا ۔اےک مرد با ضمےر تےار ہو گےا چھ ماہ مانگ تانگ کر مفت کی کھانے کا عادی ہو گےا ۔چھ ماہ بعد شرط پوری کرنے پر ملکہ حسن سے شادی کا خواستگار ہوا ۔ اس پر مہ جبےں نے کہا اب تم ےہ دھندہ ہمےشہ کےلئے چھوڑ دو اور محنت مزدوری سے رزق حلال کو اپنا شعار بنا لو ۔ دےوانہ حسن جو، اب مفت کی کھانے کا عادی ہو چکا تھا اس نے کہا کہ اے ملکہ حسن اب تم مجھ سے شادی کرو ےا نہ کرو مےں ےہ دھندہ چھوڑنے سے رہا ۔ےہی حال ہماری حکومتوں کا رہا ہے ےا پھر ان کا حال اس بھکارن جےسا ہے جس کی شادی اتفاق سے اےک بادشاہ کے ساتھ ہو گئی ۔ملکہ بننے کے بعد وہ ہر روز اےک مخصوص وقت پر اےک بند کمرے مےں گداگری والے کپڑے پہن لےتی اور مختلف کونوں مےںجا کر سخےوں کے نام پر مانگتی اور ےوں اپنی علت پوری کر لےا کرتی تھی ۔حقےقت مےں ہمارا حال اس بھکارن اور عاشق ناہنجار جےسا ہی ہے ۔آخر کب تک بھےک مانگ کر کھاتے رہےں گے ۔خدا جانے وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب ہم نے کشکول پکڑا تھا اور بےن الاقوامی بھکاری بنے تھے ۔ساہو کاروں کی عالمی منڈی مےں پاکستانی قوم کو گروی رکھ کر سب سے پہلے بھےک لےنے کا اعزاز کس حصے مےں آےا تھا اور اسے کتنے فےصد کمےشن ملی تھی لےکن ہم اتنا ضرور جانتے ہےں کہ آئی اےم اےف نے اےک سخت ہداےت نامہ ضرور جاری کر دےا ہے ۔ اگر اس ہداےت نامہ کی شکل مےں دےے گئے مشوروں سے ہماری خود مختاری کا سوال اٹھتا ہے تو ےہ بھی ہمارے حکمرانوں کے سوچنے کی بات ہے کہ وہ آئی اےم اےف کے قرضوں کے عوض ملک کی خود مختاری کو کےوں اس کے چنگل مےں جانے دےتے ہےں ۔آئی اےم اےف کے بےان مےں ہماری اقتصادی اور معاشی صورتحال مےں موجود جن خامےوں اور قباحتوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہ اپنی جگہ درست ہے جن پر اگر قابو پالےا جائے تو ہمےں اپنی معےشت کو سہارا دےنے کےلئے آئی اےم اےف ےا کسی دوسرے ادارے سے قرضہ لےنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو گی ۔ ابراہام لنکن کہتا ہے آپ مجھے مچھلی دےجئے مےں آج ہی کھا لوں گا ۔آپ مجھے مچھلی پکڑنا سکھا دےجئے مےں تمام عمر مچھلی کھا سکوں گا ۔ہم مچھلی پکڑنا سےکھ کےوں نہےں لےتے ۔آخر ہم کب تک مانگے کی مچھلی پر گزارا کرتے رہےں گے کےا ہم نے ماضی ےا حال مےں کبھی مچھلی پکڑنے کی کوشش کی اگر کی ہے تو اس کانتےجہ کےا نکلا۔وہی تو نہےں جو اےک شکاری کی کوشش کا نکلا تھا ۔اےک شکاری درےائے لےمز کے کنارے درےا مےں ڈوری ڈالے مچھلی پکڑنے کےلئے بےٹھا تھا کہ بےٹھے بےٹھے شام ہو گئی اور کوئی مچھلی کانٹے مےں نہ لگی ۔درےا کے ساتھ ہی دماغی امراض کا شفاخانہ تھا اچانک اس کی کھڑکی کھلی اور اےک دماغی مرےض نے پوچھا کےا کر رہے ہو ۔ جواب دےا مچھلی پکڑ رہا ہوں کب سے بتاےا صبح سے کوئی مچھلی پکڑی ہے ، نہےں تب اس دماغی مرےض نے چڑ کر کہا تو پھر وہاں ڈوری لےکر کےا کر رہے ہو ،اندر آ جاﺅ۔اگر ہم گزشتہ 75برسوں مےں مچھلی نہےں پکڑ سکے تو ڈوری لےکر درےا کے کنارے کےوں بےٹھے ہےں۔کےا ہمےں اس ذہنی مرےض کے مشورے پر توجہ نہےں دےنی چاہےے ۔ہمارے پاس وسائل کی کمی نہےں ۔دنےا کے بہترےن ماہر معاشےات ہمارے پاس موجود ہےں ۔پھر کےا ہوا کہ ان کی کوئی معاشی پالےسی ،کوئی حکمت عملی ہمےں اب تک معاشی دلدل سے کےوں نہےں نکال سکی ؟آج اسی حقےقت پر سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ گڑ بڑ کہاں کہاں ہے ۔اگر اس گڑ بڑ کا سراغ ہم نے پا لےا تو پھر کوئی وجہ نہےں کہ ہماری معےشت زبوں حالی کا شکار اور ملک دےوالےہ رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri