24 اکتوبر ریاست جموںکشمیر کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 1947 میں اس خطے کے عوام نے ڈوگرہ راج کے خلاف بغاوت کر کے آزاد کشمیر کا علاقہ آزاد کروا کر ایک آزاد حکومت کی بنیاد رکھی۔ لیکن آج، تقریبا 78 برس بعد، جب آزاد کشمیر کا یومِ تاسیس منایا جا رہا ہے تو یہ جشن خوشی کم اور غور و فکر کا موقع زیادہ بن چکا ہے عوامی سطح پر بے چینی، سیاسی عدم استحکام، کرپشن، اور بنیادی سہولیات کی کمی نے اس خطے کے خوابیدہ چہرے پر مایوسی کی چھاپ چھوڑ دی ہے۔1947 کی آزادی کی تحریک ایک قربانی، جذبے اور خودداری کی داستان تھی۔ ریاست جموں و کشمیر کے بہادر عوام نے ڈوگرہ فوجوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور اپنے حصے کے علاقے کو آزاد کرایا۔ اس دوران پاکستان کے قبائلی عوام نے بھی اس جدوجہد میں حصہ لیا۔ یہ وہی وقت تھا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان 17 دن تک جنگ ہوئی۔ بھارتی افواج کو شدید دبا کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جا کر سیز فائر کی درخواست کی۔ اور اقوام متحدہ نے کشمیری عوام کے حقِ خود ارادیت کی قرارداد منظور کی جو آج تک عملدرآمد کی منتظر ہے مقبوضہ و آزاد کشمیر کے درمیان ایک خونی لکیر سیز فائر لائن کہلاتی ہے جہاں 1947 سے لے کر آج تک کشمیری عوام شہید ہورہے ہیں۔ اس سال آزاد کشمیر کا یومِ تاسیس ایسے حالات میں منایا جا رہا ہے جب عوام اپنی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار، بجلی اور سڑکوں جیسے بنیادی مسائل پر حکومت کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ عوام میں یہ احساس جڑ پکڑ چکا ہے کہ ان کے حکمران اقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں، عوامی فلاح و بہبود ان کی ترجیح نہیں ہے وہی وعدے، وہی دعوے، وہی تقاریر لیکن عملی اقدامات کہیں دکھائی نہیں دیتے۔آزاد کشمیر کی حکومت کو ابتدا میں بیس کیمپ کہا گیا تھا تاکہ یہاں سے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کو منظم کیا جا سکے۔ مگر آج یہ بیس کیمپ خود غیر یقینی، بدعنوانی اور بے عملی کا شکار ہے۔ نہ کوئی مثر خارجہ حکمتِ عملی نظر آتی ہے، نہ کوئی منظم عوامی منصوبہ بندی۔ آزادی کے نعرے اب جلسوں کی حد تک محدود ہیں، جبکہ عملی میدان میں خالی پن اور بے سمتی چھائی ہوئی ہے۔2021 کے بعد سے آزاد کشمیر کی حکومتیں بار بار تبدیل ہوئیں۔ ایک وزیراعظم کے جانے کے بعد دوسرا آیا، پھر تیسرا، اور ہر نئے آنے والے نے پچھلے سے زیادہ بداعتمادی پیدا کی۔ یہی سیاسی غیر استحکام عوامی ردِعمل کا سبب بنا، اور اسی پس منظر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی وجود میں آئی۔ یہ کمیٹی کسی ایک جماعت یا طبقے کی نمائندہ نہیں بلکہ عام شہریوں، مزدوروں، تاجروں اور نوجوانوں کی آواز بن چکی ہے۔ اس تحریک نے وہ بات کر دی جو برسوں سے زبانوں پر آ نہیں پاتی تھی کہ آزاد کشمیر میں عوام کی حکمرانی نہیں، بلکہ اقتداری طبقے کی اجارہ داری ہے۔عوام اب پرانے چہروں سے تنگ آ چکے ہیں۔ ان کے نزدیک چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا، اب نظام بدلنا ہوگا، طریقہ کار بدلنا ہوگا۔ یہ کرپشن زدہ سیاسی ڈھانچہ، جہاں اقتدار کے ایوانوں اور الیکشن میں کروڑوں روپے کی بولیاں لگتی ہوں، وہاں اگر کرپشن نہیں ہوگی تو کیا ہوگا؟ عوام سمجھ چکے ہیں کہ جب سیاست سرمایہ کاری بن جائے تو عوامی خدمت کا جذبہ مر جاتا ہے۔ آزاد کشمیر کی قیادت فیصلہ سازی میں آزاد نہیں۔ اکثر فیصلے اسلام آباد میں ہوتے ہیں، اور مظفرآباد کے حکمران صرف ان پر عملدرآمد کرتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال حالیہ دنوں میں دیکھی گئی، جب آزاد کشمیر میں صدر اور وزیراعظم کی موجودگی کے باوجود وفاقی حکومت نے براہِ راست جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کیے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آزاد کشمیر کا نظام کتنا بے اختیار ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف آئینی کمزوری کو عیاں کرتی ہے بلکہ عوام کے اس احساس کو مزید مضبوط کرتی ہے کہ اصل اختیار کہیں اور ہے۔گزشتہ چند برسوں میں نیشنلسٹ جماعتوں نے خود کو ازسرِنو منظم کیا ہے۔ وہ اب مقامی سیاست میں اثرورسوخ حاصل کر رہی ہیں۔ عوام روایتی قیادت سے مایوس ہو کر نئے بیانیے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اگر آئندہ انتخابات اسی موجودہ نظام کے تحت ہوئے تو عوام پرانے اقتداری طبقے کو رد کر دیں گے۔ وہ جان چکے ہیں کہ آزادی کے خواب کو صرف نعروں سے نہیں، عملی جدوجہد سے حقیقت بنایا جا سکتا ہے۔آزاد کشمیر کا یومِ تاسیس دراصل ایک یاد دہانی ہے یہ دن ہمیں بتاتا ہے کہ آزادی محض جغرافیہ کا نام نہیں، بلکہ انصاف، خودداری اور خودمختاری کی ایک مسلسل جدوجہد کا عنوان ہے۔ آج جب عوام سڑکوں پر ہیں، جب حکمران عوامی اعتماد کھو چکے ہیں، جب کرپشن عام ہے اور قیادت بے بس، تو یہ دن ہمیں خود احتسابی کی طرف بلاتا ہے۔ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر اسی راستے پر چلتے رہے تو آزادی کا خواب مزید دھندلا جائے گا۔ اب وقت ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام اور قیادت ایک نئے عمرانی معاہدے کی بنیاد رکھیں جہاں عوام کی طاقت ہی اصل اقتدار ہو، جہاں شفافیت نظام کی روح ہو، اور جہاں سیاست عبادت بنے نہ کہ کاروبار۔آزاد کشمیر کی اصل آزادی تب مکمل ہوگی جب یہاں کا نظام کرپشن، اقرباپروری اور سیاسی غلامی سے آزاد ہوگا۔ ورنہ ہر سال 24 اکتوبر محض ایک رسمی تقریب بن کر رہ جائے گا، اور قومیں رسمی تقریبات سے نہیں بلکہ عمل سے زندہ رہتی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ کیا گیا وفاقی حکومت کا معاہدے پر عملدرآمد نہ ہوا تو آزاد کشمیر اور اوورسیز کشمیریوں میں مزید افراتفری پھیلے گی اور بداعتمادی پیدا ہوگی یاد رہے کہ آزاد کشمیر کی پوری آبادی ریاست پاکستان کے استحکام کے لئے کمربستہ ہے اور مضبوط و مستحکم پاکستان کو کشمیر کی آزادی کی ضامن گردانتی ہے۔

