جمہوریت کیلئے جدوجہد کرنے والے لوگوں کیلیے یہ بھیانک خواب ہے کہ انہیں جمہوری حقوق کیلیے آواز بلند کرنا کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے ۔ آواز بلند کرنے پر وہ جان سے جا سکتے ہیں ۔ انکی عزت کی دھجیاں بکھیری جا سکتی ہیں ۔ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے ۔ انکا جینا حرام کرنے کیلیے ان پر بیجا مقدمات بنائے جا سکتے ہیں ۔ انکے کاروبار نوکری ختم کرنے کیلیے اداروں کو استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ یہ تکلیف دہ ہے۔ عوام غصہ میں ہے کہ جمہوریت کے دور میں سیاسی کارکنوں کو سیاسی جماعت کے کارکن کی بجائے دہشت گرد شر پسند اور ملک دشمن قرار دیا جا رہا ہے ۔ ایسی قانون سازی ہو گئی ہے کہ حکمران جماعت کے حق حکمرانی کو جمہوری نہیں آمرانہ طریقہ سے گرفت میں لانے میں مدد ملے ۔ حکمرانوں کے خلاف صحافتی اداروں سوشل میڈیا الیکٹرانک میڈیا کو بھی قوانین کے ذریعہ آزادی اظہار کو کنٹرول کیلیے استعمال کا جا رہا ہے ۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں سیاسی کروٹ بدلنے پر کسی قانون کی خلاف ورزی ہو جاتی ہے ۔ عوام متنفر ہو رہی ہےآپ انہیں اپنے حق کیلیے جلسے جلوس کرنے پر دہشت گرد اور شر پسند کہتے ہو ۔ یہ یسی جمہوریت ہے جس میں اپوزیشن جلسہ جلوس نکالے تو شر پسند دہشت گرد اور ملک دشمن ہو جاتی ہے ۔ بھٹو بی بی زرداری کی رہائی کیلئے جب پیپلز پارٹی نے جلسے جلوس نکالے تو اس وقت کے دہشت گرد آج حکمران ہیں ۔ نواز شریف نے بھی حکمران جماعت کے خلاف لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا ۔ نواز شریف کیلیے انکی مرحومہ بی بی نے تحریک چلائی تھی ۔ بھٹو قتل کے مقدمہ میں اور پاکستان تو دو لخت کرنے کے الزام کے ساتھ زرداری کرپشن کیلیے اغوا برائے تاوان جیسے الزامات میں ملوث نواز شریف پر بھی سیاسی قتل گردی مخالفین اور کرپشن آرمی چیف کو ملک میں اترنے کی اجازت نہ دینے جیسے الزامات ہیں ۔ یہ سب افعال و اقدامات آج اگر کوئی سیاسی جماعت کرتی ہے تو غلط کیوں کہا جاتا ہے ۔ جہاں تک سیاسی بیان بازی کی بات ہے تو امریکہ کے خلاف بھٹو صاحب اور انکے حلیف سب سے زیادہ بولتے رہے ہیں ۔ کیا مولانا فضل الرحمن نے افغان جنگ کے دوران امریکہ کے خلاف تھوڑا بولا ۔ فلسطین کے معاملہ پر امریکہ کو اسرائیل کی پشت پناہی پر بولا جاتا ہے ۔ پاکستان کے آئین میں کیا امریکہ یا ایسے ممالک جو پاکستان کو امداد دیتے ہیں کی کسی برائی پر بات کرنا جرم ہے ؟ سیاسی کارکنوں کا احتجاج غیر آئینی کیسے ہے جبکہ آئین سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دیتا ہے ۔ البتہ حکومت کا سیاسی سرگرمیوں اور آزادی اظہار پر پابندی اور ان کو محدود کرنے کیلیے قانون سازی خلاف آئین ضرور ہے ۔ بھٹو فیملی آج کتنی جائیدادوں کی مالک ہے معلوم نہیں ۔ میاں فیملی جو دعوی کرتی ہے کہ بھٹو نے انکے کاروباری اداروں کو قومی تحویل میں لیا ۔ اس وقت سے آج تک چار بار دیوالیہ ہو کر بھی انکی دولت کا شمار نہیں ۔ پاکستان کو اپنے آقتدار کیلیے تجربہ گاہ بنانے والے بھٹو اور میاں فیملی تو اس ملک اور قوم کے محسن ہیں لیکن جنکو محروم کیا گیا جن سے چھن گیا وہ آواز بلند کریں تب وہ شر پسند دہشت گرد کہلائیں ۔ پاکستان کو اب لوگ نفرت سے دیکھتے ہیں ۔ اسکو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ۔ اسے غریبوں کا قبرستان امیروں کیلیے جنتستان پکارا جا رہا ہے ۔ کیونکہ حکمرانوں کی پالیسیوں سے امیر کیلئے یہاں سب کچھ ہے جبکہ غریب کیلئے نہ روٹی نہ عزت نہ زندگی ہے ۔ فرعون نے بنی اسرائیل کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا تھا ۔ یہ مشقت کریں اور آل فرعون عیاشی کرے ۔ پھر اللہ نے انہیں انجام سے دوچار کیا ۔ یزید نے یہی چاہا چنگیز نے قوموں کو غلام کرنا چاہا لیکن انجام کو پہنچے ۔ یہ تاریخ تھی پھر ایوب بھٹو ضیا مشرف نے چاہا یہ تاریخ ہے ۔ آج آپ چاہ رہے ہو جو تاریخ بنے گی ۔وقت رکتا نہیں انکا بھی گزر گیا اور یہ بھی گزر جائے گا ۔ جیسے مذکورہ نام آپ اور میں سب حقارت اور گالی کی طرح لیتے ہیں اسی طرح آنے والے اس دور کو ایسے ہی لفظوں سے یاد کریں گے ۔ قصیدہ گو خوشامدی ٹولہ حکمرانوں کو سب اچھا بتا کر حقیقت سے دور رکھتا ہے ۔ وہ آپکو شفقت احتیاط کے نام پر آمریت اور ظلم کی راہ دکھاتا ہے ۔ اندھا اعتبار کر کے آپ ان قصیدہ گو سازشی مفاد پرست ٹولہ کی خواہشات کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں ۔
پاکستان میں اس وقت عام آدمی کی زندگی بہت مشکل میں ہے ۔ سب سے پہلے بیروزگاری عام ہے ۔ اس پر ٹیکسوں کی بھرمار نے مہنگائی سے جینا محال کر رکھا ہے ۔ عام آدمی سانس کا رشتہ کیسے قائم رکھے ہوئے ہے قصیدہ گو اس سے لاعلم ہیں ۔ وہ حکمرانوں کو یقین دلا رہے ہیں کہ سٹاک ایکسچینج کے اعشاریہ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ترقی کر رہا ہے ۔ یہ غلط ہے عام پاکستانی کا اس سے کوئی واسطہ نہیں یہ چند صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو امیر سے امیر تر ہونے کا کھیل ہے ۔ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری ہو رہی ہے تو اندرون سرمایہ کار کہاں گئے ۔ ملک کی صنعت کو تحفظ دینے کے اقدامات کیوں نہیں کیے جاتے ۔ پاکستان کے اپنے حقیقی سرمایہ اور اصلی شہری کو کیوں تحفظ نہیں دیا جاتا تاکہ ملک حقیقی طور پر معاشی استحکام کی منزل طے کرے ۔ مصنوعی طریقہ سے قرضوں سے کب تک کام چلے گا ۔ آپ قرضہ لیتے جا اور عوام کا خون پسینہ سے کمائی دولت پر ٹیکس پر ٹیکس لگا کر اس کی اقساط اور سود واپس کرو ۔ ایک طرف سے قسط لو دوسری طرف قرضہ کی قسط و سود ادا کر دو ۔ جو بچ گیا اسے اپنی مراعات اور استحقاق کے زور سے تقسیم کر کے قوم کو نئے معائدہ ہونے اس کی کڑی شرائط پر مجبوری میں مان لینے اپنی سیاست کو ریاست اور عوام کیلیے قربان کر دینے کی نوید سنا دی جاتی ہے ۔ باہر ہوں تو استحقاق اندر ہوں تو بھی استحقاق کے ذریعہ کیٹیگری حاصل ہوتی ہے ۔ عوام کبھی بھٹو فیملی پر مظالم کے خلاف تحریکوں میں کوڑے کھاتے جیلیں بھرتے تو کبھی شریف خاندان کیلیے لانگ مارچ کرتے ہیں ۔ رہی کسر خان صاحب کی انصاف پسند سیاست کیلیے دھرنوں میں نکل گئی ۔ عوام پہلے روٹی سے محروم تھے پھر روزی سے محروم ہوئے اب عزت بھی ہاتھ سے گئی ۔
کالم
آمرانہ طریقہ جمہوریت
- by web desk
- نومبر 25, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 38 Views
- 1 ہفتہ ago