کالم

اخلاقیات کادامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں

انتخابی منشور۔

زندگی سے بھرپورفائدہ اٹھانا،خاطرخواہ لطف اندوز ہونا اور فی الحقیقت کامیاب زندگی گزارنا یقینا آپ کا حق ہے لیکن اسی وقت جب آپ زندگی کا سلیقہ جانتے ہوں،کامیاب زندگی کے اصول و آداب سے واقف ہوں اور نہ صرف واقف ہوں بلکہ عملاً آپ ان اصول و آداب سے اپنی زندگی کو آراستہ و شائستہ بنانے کی کوشش میں پیہم سر گرم بھی ہوں – ادب و سلیقہ، وقار و شائستگی،ادب و پاکیزگی، تمیزو حسن انتخاب، ترتیب و تنظیم، لطافت احساس وحسن ذوق، اعلی ظرفی اور شرافت طبع، ہمدردی اور خیر خواہی، نرم خوئی اور شیریں کلامی ، تواضع، انکساری اور ایثار و قربانی، بے غرضی اور خلوص استقلال وپا مردگی، فرض شناسی اور مستعدی،خدا ترسی اورپرہیز گاری توکل و جرا¿ت اقدام، یہ اسلامی زندگی کے وہ دلکش خدوخال ہیں جن کی بدولت مومن کی بنی سنوری زندگی میں غیر معمولی کشش اور وہ اتھاہ جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے کہ نہ صرف اہل اسلام بلکہ اسلام سے ناآشنا بندگان خدا بھی بے اختیار اس کی طرف کھنچنے لگتے ہیں اورعام ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ جو انسانیت نواز تہذیب زندگی کو نکھارنے، سنوارنے اور غیر معمولی جاذبیت سے آراستہ کرنے کےلئے انسانیت کو یہ بیش بہا اصول و آداب عطا کرتی ہے وہ یقینا ہوا اور روشنی کی طرح سارے انسانوں کی میراث ہے اور بلاشبہ اس قابل ہے کہ پوری انسانیت اسے قبول کرکے اس کی بنیادوں پر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی کامیاب تعمیرکرے تاکہ دنیا کی زندگی بھی راحت و سکون،نشاط اور امن وعافیت کا گہوارہ بنے اور دنیا کے بعد کی زندگی میں بھی وہ سب کچھ حاصل ہو جو ایک کامیاب اور فلاح یافتہ زندگی کےلئے ضروری ہے لیکن مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اتنے سنہری اصول رکھنے کے باوجود ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اور منزل کی سمت نظر نہیں آرہی ہے اور ہم حیرانی اور سرگردانی کہ جنگل میں بھٹکے ہوئے پھر رہے ہیں باقی زندگی کے معمولات تو ایک طرف ہم صرف ملک کی قیادت کو سامنے رکھیں تو پتہ چلے گا کہ قائدین کی بہتات نے قیادت کا فقدان پیدا کردیا ہے اور ہمیں ہر قائد مسیحا کی شکل میں نظر آتا ہے مگر جب اس کا بھیانک چہرہ سامنے آتا ہے تو ہم مایوسیوں کی وادیوں میں گم ہوجاتے ہیں اس کی وجہ بھی شاید ہم لوگ ہی ہوں جو، ان سیاستدانوں کے خوش کن نعروں کے اسیر ہو جاتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہوئے ان کے انتخاب میں دھوکہ کھا جاتے ہیں اس وقت اگر آپ کے سامنے اسلامی تعلیمات ہوں تو بلا شبہ آپ کا انتخاب کبھی غلط نہ ہوگا یاد رہے کہ دین میں بزرگی اور بڑائی کا معیار نہ مال و دولت ہے نہ خاندان بلکہ دین میں وہی شخص سب سے افضل ہے جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہے لہٰذا قیادت کا انتخاب کرتے ہوئے ایسے شخص کو منتخب کرنا چاہیے جو خدا ترس اور پرہیزگار ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی امور کا ذمہ دار ہو اور مسلمانوں پر کسی کو محض رشتہ داری کی بنا پر یا محض دوستی کی وجہ سے حکمران بنائے تو خدا اس کی طرف سے کوئی فدیہ قبول نہ کرے گا یہاں تک کہ جہنم میں ڈال دے گا ” آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے بہت پہلے وزیراعظم صاحب کو یہ مشورہ دیا تھا کہ کسی کو بھی برے ناموں سے نہ بلایا کریں یہ اسلامی تعلیمات اور آپ کے منصب کے بھی خلاف ہے مگر وزیراعظم پاکستان خدا جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ ان پر کسی بات کا اثر ہی نہیں ہوتا ہے حالانکہ جس ماحول میں ان کی پرورش ہوئی ہے وہاں تو ایسی زبان کا استعمال کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے- میں سمجھتا ہوں کہ اس ساری گندی اور گالی گلوچ کی سیاست کا انجام وہی ہوتا ہے جو 12اکتوبر 1999کو ہوا تھا، یعنی ایک اور مار شل لاءاور 8سال کی آمریت، کیونکہ جب عوام کی بھلائی نہ ہو اور سیاست دان عنان اقتدار کے لالچ میں ایک دوسرے کے د ست و گریباں ہوں تو عوام کو آمر حکمران بھی ایک مسیحا نظر آتا ہے۔ یہی کچھ 90 کی دہائی میں ہوا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔کسی بھی ملک کی ترقی و فلاح کےلئے بلا شبہ جمہوریت کا تسلسل بہت ضروری ہے مگر یہ تسلسل عوام کی بہتری اور قانون سازی سے مشروط ہے۔آج سیاست میں جس درجہ کی گفتگو ہو رہی ہے وہ یقیناً ایک المیہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب کو بھی چاہیے کہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور جہاں تک بات ہے کر پشن کےخلاف کاروائی کرنے کی تو وہ ضرور کریں۔وہ خواہ زرداری صاحب ہوں یا شریف فیملی مگر کسی کی ذات پر حملہ کرنا یا ذو معنی جملے بولنا وزیر اعظم کے منصب کو کسی صورت زیب نہیں دیتا ہے۔ میری تمام سیاستدانوں سے گزارش ہے کہ تحمل، بردباری اور اخلاقیات کا دامن نہ چھوڑیں اور ایک دوسرے پر الزامات لگاتے وقت لغو الفاظ استعمال نہ کریں اور بہتر اخلاقیات کا مظاہرہ کریں ۔ شیخ رشیدصاحب ہوں یا کوئی دیگر اِن کاکام تمام معاملات کو ٹھنڈا کرنا ہونا چاہیے نہ کہ اپنے لیڈروں کےلئے ”شاہ سے زیادہ شاہ کا وفاداروں کی حد کراس کرنا۔آج کے ملکی حالات سیاست میں کسی مزید غلاظت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ احتساب پوری قوم کا مطالبہ ہے لیکن احتساب کے نام پر باقی امور سے توجہ نہیں ہٹنی چاہیے۔ عوام کےلئے مہنگائی، ڈالر کی قیمت میں بے پناہ اضافہ اور پٹرولیم مصنوعات میں بڑھ کر سب مسائل پر توجہ کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔مگر ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن کی بھی ذمہ داری ہے کہ حکومت کو پورا وقت دے اور عوام کی بہتری کے کسی بھی منصوبے پر سیاست کرنے سے اجتناب کرے اور پچھلے دو ادوارمیں زرداری صاحب اور نواز شریف صاحب کو پورے پانچ سال کا وقت دیا گیا ہے موجودہ حکومت کو بھی 5سال پورے کرنے دئیے جائیں۔سیاست کا مقابلہ صرف سیاست سے ہوتا ہے دبا¶ سے وقتی فائدہ لیا جاسکتا ہے کسی کو اختیار دلایا جاسکتا ہے لیکن عوام کے دل نہیں جیتے جاسکتے اورکسی بھی حکومت کی اندھی مخالفت یا اندھی حمایت دونوں ہی غلط رویے ہوتے ہیں۔ ہماری فہم کہتی ہے کہ مملکت سے جڑی سیاست کی ڈوریاں کھینچنے سے پرہیز کیا جائے اور اسے آزاد چلنے دیں،پاکستان خود بخود ٹھیک ہو جائیگا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے