کالم

اداروں کو غیر جانبدار رہنا ہوگا

امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق صاحب نے سیاسی جماعتوں کو قومی انتخابات پر مذاکرات کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی اپنی کوششوں کے تناظر میں واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ، اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمشن کو غیر جانبدار ہونا ہوگا۔ کرکٹ کھیلنی ہے تو سب کو میچ کی تاریخ، گراو¿نڈ اور طریقہ کار پر متفق ہونا پڑے گا۔ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم اپنے موقف میں لچک لائیں، ریڈ لائنز سے پیچھے ہٹیں۔
جماعت اسلامی نے ملک اور عوام کی خاطر سیاسی جماعتوں کو انتخابات کی ایک تاریخ پر متفق کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز کیا ہے۔لیکن ایک بات طے ہے کہ جماعت اسلامی کسی کی خواہش پر مذاکرات نہیں کرا رہی نہ ہی اس کا مقصد حلیف یا حریف تلاش کرنا ہے بلکہ وطن عزیز کو بحرانوں سے نکالنے اور انتخابات پر یکساں رائے لینے کےلئے مذاکرات پر زور دے رہی ہے۔
جناب امیر جماعت کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کسی صف بندی کے لیے نہیں گئی، ن لیگ اپنی سیاست کرے، ہم اپنی کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی عوام کا مقدمہ لڑ رہی ہے۔ ہمارے پیش نظر پاکستان کی ترجیحات ہیں۔ ہمارا مقصد صرف اور صرف پی ڈی ایم، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کو انتخابات کی ایک تاریخ پر راضی کرنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ایک سینئر سیاست دان ہیں، انہوں نے ہمیشہ مذاکرات کی بات کی ہے، ہم ان کے پاس بھی جائیں گے، عید کے بعد سیاسی جماعتوں میں مذاکرات کے لیے کوششوں میں تیزی لائی جائے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے امیر جماعت سے ملاقات میں اعتراف کیا کہ حالات خراب ہیں۔ چیف جسٹس نے خود ہی بال اپنے کورٹ میں ڈال دی ہے۔ اگر وہ فل کورٹ بنا دیتے تو کوئی فیصلہ سے انحراف کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ عدلیہ سے اپیل ہے کہ موقف میں نرمی اختیار کرے اور سیاست دانوں کو مل بیٹھنے کا موقع دے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے بھی کہوں گا کہ وہ عوام سے کیا گیا غیرجانبداری کا وعدہ اس طرح پورا کرے کہ سب کو نظر آئے۔
وزیراعظم سے ہونے والی ملاقات میں یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ حالات بہت خراب ہیں اور وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے، اگر ایسے ہی رہا تو سیاست، جمہوریت اور اسمبلیاں نہیں رہیں گی۔ اگر سب نے مل کر ایسے شفاف انتخابات پر اتفاق نہ کیا تو اور الیکشن سے پہلے معاملات طے نہ کیے تو ایسے نتائج کو ہم تسلیم نہیں کریں گے۔ عمران خان، صدر پاکستان اور شہباز شریف سمیت سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ملک کے حالات خراب ہیں مگر ان سے نکلنے کے راستے کے معاملے پر سب تذبذب کا شکار ہیں اور سپریم کورٹ سمیت سب بند گلی میں چلے گئے ہیں جہاں کوئی نہیں جانتا کہ آنے والے کل کیا ہوگا، اسی وجہ سے ماحول میں بہت زیادہ تناو¿ اور کشیدگی ہے۔
جماعت اسلامی کی خواہش ہے کہ مرکز اور صوبوں میں نگراں حکومت قائم ہو اور پھر ا±س کے بعد سب لوگ الیکشن میں جائیں۔ ملکی مسائل کا حل عوام کے پاس ہی ہے۔ سیاسی جماعتیں ایوان میں صرف اپنے مسائل پر بات کر رہی ہیں اور غریب کے مسائل کو کوئی نہیں اٹھا رہا۔ مسئلہ حکومت، اپوزیشن یا سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ عام پاکستانی، کاشتکار اور دیہاتی کا ہے، جس پر کوئی دھیان نہیں دے رہا اور آج اسی وجہ سے عوام بہت زیادہ پریشان ہیں۔
جناب سراج الحق نے کہا کہ ’میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کے بچوں کو ملک میں امن اور انصاف ملے، چاندی جیسا دودھ ملے اور پانی صاف ملے۔مہنگائی، بے روزگاری اور بدامنی تین جن ہیں جو اس وقت بوتل سے باہر آچکے اور اب قابو سے بھی باہر ہیں‘۔یہ ان حکمرانوں کے اعمال کا نتیجہ ہے جو ہمیں نظر آرہا ہے۔ ملک کے مسائل کا حل عوام کے پاس ہے اور انہیں اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ہر صورت میں نقصان عوام کا ہے، سیاسی رہنما بھی آپس میں دست و گریباں ہیں اور کوئی ان مسائل سے نکلنے کی بات نہیں کررہا، عدالتوں نے بھی عوامی مسائل پر سوموٹو نہیں لیا۔
الیکشن کے مسائل سپریم کورٹ حل کر سکتی ہے نہ اسٹیبلشمنٹ لہذا دونوں اداروں کو ان معاملات میں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ بہت زہریلی پولرائزیشن ہے اور بہت فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ ان حالات میں مثبت پیش رفت یہی ہو سکتی ہے کہ الیکشن ہوں۔ الیکشن پر ہم سب کا اتفاق ہونا چاہیے۔ صرف پنجاب یا خیبر پختونخوا کے الیکشن سے مسئلہ حل نہیں ہو گا، مرکز اور چاروں صوبوں میں الیکشن ہوں۔ صوبوں میں نگراں حکومتیں بنانی پڑیں گی، ہم الیکشن اور صرف الیکشن کے لیے مثبت ڈائیلاگ چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ سیاستدانوں کو چانس دے کہ وہ خود اپنے مسائل حل کر لیں۔ الیکشن کے بعد جو بھی حکومت ہو سب اسے تسلیم کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے