ادب کی دنیا میں کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جو اپنے فن، احساس اور الفاظ کے لمس سے دلوں میں گھر کر لیتے ہیں وہ محض لکھنے والے نہیں ہوتے بلکہ قاری کے احساسات کو بیدار کرنے، سوچ کو مہمیز دینے اور دل کے بند دریچوں کو وا کرنے والے ہوتے ہیں اِنہی روشن ناموں میں ایک چمکتا دمکتا نام روبینہ شاہین رُوبی کا ہے جو تخلیق، فکر، جذبے اور احساس کی خوبصورت تصویر بن کر پاکستان کے ادبی اُفق پر جگمگا رہی ہیں۔ گوجرانوالہ کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی روبینہ شاہین کا سفر علم و ادب کے زینے چڑھتے ہوئے لاہور تک پہنچا، جہاں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز مکمل کرنے کے بعد اِن کے تخلیقی سفر نے ایک نیا موڑ لیا۔ وہ بچپن ہی سے مائیک اور قلم کی ہمسفر رہیں۔ سکول کے زمانے سے ہی اِن کے اندر موجود خوداعتمادی، علم دوستی اور فطری اظہار نے اِنہیں اپنے خاندان کی پہلی خاتون بنا دیا جس نے قلم کو اپنی پہچان بنایا ہے۔ اِن کی شخصیت میں سادگی اور وقار کا حسین امتزاج جھلکتا ہے۔روبینہ شاہین نے اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرتی رویوں، انسانی احساسات، عورت کی جدوجہد، خوابوں اور اُمیدوں کی داستانوں کو لفظوں کے قالب میں ڈھالاہے۔ اِن کا اسلوب نرم، دلکش اور دل میں اُتر جانے والا ہے۔ وہ لکھتی ہیں تو گویا قاری کے دل سے مخاطب ہوتی ہیں ۔اِن کے الفاظ میں نہ تصنع ہے نہ دکھاوابلکہ خلوص کی ایک چمک ہے جو براہ راست دل تک پہنچتی ہے۔اِن کے قلم نے صحافت اور ادب دونوں میدانوں میں خود کو منوایاہے۔ زمانہ طالب علمی میں ہی اخباروں میں کالم نگاری کا آغاز کیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک سنجیدہ،باوقار، مشاہدہ رکھنے والی
اور درد دل سے لبریز کالم نگار کے طور پر پہچانی گئیں۔ اِن کے کالمز زندگی کے مختلف زاویوں، انسانی رشتوں، معاشرتی مسائل اور حوصلہ افزائی کے پیغامات سے بھرپور ہوتے ہیں ۔اِسی سلسلے کی ایک خوبصورت کاوش اِن کی آنے والی کتاب ”زاویے اور زندگی” ہے جو اِن کے فکری گہرائی اور مشاہداتی بصیرت کی عکاس ہے۔روبینہ شاہین کی تخلیقی جہتوں کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔وہ شاعرہ بھی ہیں افسانہ نگار بھی ناول نگار بھی اور نظامت کار بھی۔ اِن کی تحریروں میں نہ صرف عورت کی دنیا کا عکس جھلکتا ہے بلکہ انسانیت کے ہر رنگ کو وہ بڑی خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں ۔اِن کا مشہورِ زمانہ ناول ”روز مرتے ہیں جینے کی آرزو میں” 2022 میں منظر عام پر آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ادبی دنیا میں ایک ہلچل سی مچا دی۔ اِس ناول نے خواتین کو جینے، سوچنے اور خود کو پہچاننے کا ایک نیا حوصلہ دیاہے۔ یہ
ایک ایسا موٹیویشنل ناول ہے جس نے سینکڑوں دلوں کو اُمید کی کرن دی ہے۔ ناول کو ملکی و بین الاقوامی سطح پر بے شمار ایوارڈز، سرٹیفکیٹس اور میڈلز سے نوازا گیا اور روبینہ شاہین کا نام ادبی حلقوں میں اعتماد اور معیار کی علامت بن گیاہے۔ 2025 روبینہ شاہین کے لیے خوش بختی اور کامیابیوں کا سال ثابت ہوا۔اِسی سال ان کی شاعری کی کتاب ”خاموش سمندر”منظر عام پر آئی۔ ایک ایسا شعری مجموعہ جو احساس کی گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اِن کی شاعری میں خاموشی بھی بولتی ہے درد بھی روشنی بنتا ہے اور ہر مصرعہ دل کے نہاں خانوں کو چھو جاتا ہے۔ ”خاموش سمندر”نے انہیں عالمی سطح پر شاعری کے اُفق پر ایک نمایاں مقام عطا کیاہے۔ اِسی دوران اِنہیں پاکستان کے پہلے اورممتاز علمی و ادبی نیٹ ورک تخلیق کار انٹرنیشنل پاکستان اسلام آباد جو ادیبوں اور شاعروں کا پلیٹ فارم ہے کے ساتھ بطور نظامت کار، تبصرہ نگار، شاعرہ اور افسانہ نگار کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ اِن کے لیے نہ صرف ایک پیشہ ورانہ کامیابی تھی بلکہ ایک قومی فخر کی بات بھی تھی کہ وہ اِس پلیٹ فارم کے ذریعے عالمی ادب کے اُفق پر پاکستان کا نام روشن کر رہی ہیں۔ تخلیق کار انٹرنیشنل کے روح رواں ارحم روحان صاحب نے اِن کے فن، جذبے اور محنت کو سراہا اور اِن کی حوصلہ افزائی نے روبینہ شاہین کے حوصلے کو مزید بلند کیاہے۔اِن کے قلم کی جولانی اور فکر کی وسعت نے نہ صرف پاکستانی قارئین بلکہ عالمی ادبی دنیا کو بھی متاثر کیاہے۔ اِن کی تحریروں میں مشاہدے کی گہرائی، جذبے کی سچائی اور احساس کی نرمی ایک ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ اِن کا اندازِتحریر دلوں کو چھو لینے والا اور رُوح کو گرما دینے والا ہے۔ اِن کی تخلیقات میں انسانی زندگی اور خوابوں کی دنیا ایک دوسرے سے اِس طرح جڑی نظر آتی ہے جیسے روشنی اور خوشبو۔اب جب کہ اِن کی نئی کتاب ”فن اور شخصیت ”منظر عام پر آنے والی ہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ روبینہ شاہین نہ صرف ایک قلم کار بلکہ ایک عہد کی نمائندہ شخصیت ہیں۔
کالم
ادب کی دنیا کا ایک بلند اور باوقار نام۔۔۔۔۔روبینہ شاہین
- by web desk
- نومبر 14, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 8 Views
- 4 گھنٹے ago

