برصغیر کے مسلمانوں پرڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے بیش بہا احسانات ہیں۔ اپنے کلام کے ذریعے ا±نہوں نے مسلمانوں کو ا±ن کے حقوق سے روشناس کرایا۔ ا±ن میں آزادی کی شمع کو روشن کیا۔ تصور پاکستان دیا، جس کو بھرپور جدوجہد اور تحریک کے بعد حضرت قائداعظمؒ کی قیادت میں عملی جامہ پہنایا گیا۔ علامہؒ کی نگاہیں محض برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل و مشکلات تک محدود نہ تھیں بلکہ وہ ساری د±نیا میں بسنے والے مسلمانوں کے مسائل، حالات اور مشکلات سے بہ خوبی آگاہ تھے۔ یہودیوں اور مسئلہ فلسطین کے متعلق ا±ن کی سوچ بڑی واضح تھی۔ اپنی شاعری کے ذریعے اور مختلف مواقع پر اپنی گفتگو میں اس حوالے سے ا±نہوں نے اپنے خیالات کا واضح اظہار کیا ہے۔اقبالؒ کہتے ہیں کہ مسلمانان عالم کو چاہیے کہ پوری بلند آہنگی کے ساتھ اعلان کریں کہ برطانیہ کے مدبر جس عقدے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس کا تعلق صرف فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پورے عالم اسلام کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔میری نگاہ میں فلسطین کا مسئلہ سراسر اور کلیتاً مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی تجویز تو محض ایک بہانہ ہے اصلیت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس مقدس اور مذہبی سرزمین پر اپنا مستقل انتداب قائم رکھ کر برطانوی شہنشاہیت خود اپنے لیے ایک نیا ٹھکانہ پیدا کر رہی ہے، یہ اقدام ایک خطرناک تجربہ ہے اور برطانوی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے بھی اس کو خطرناک تجربے ہی سے تعبیر کیا ہے۔مسئلہ فلسطین پر علامہ اقبالؒ ،اقبال نامہ میں لکھتے ہیں:”فلسطین میں یہود کےلئے ایک قومی وطن کا قیام تو محض ایک حیلہ ہے، حقیقت یہ کہ برطانوی اِمپیریلزم مسلمانوں کے مقامات ِمقدس میں مستقل انتداب اور سیادت کی شکل میں ایک مقام کی متلاشی ہے ۔ “ فلسطینی عوام نے فلسطین پر برطانوی راج اور اعلان بالفور کے ذریعے فلسطین میں یہودی آباد کاری کی شدید مخالفت کی۔ فلسطین کی قومی تحریک بھی انہی خطوط پر پروان چڑھی۔تقسیم فلسطین کی تجویز کو نہ صرف فلسطینی عوام نے رَد کیا، بلکہ عالم اسلام میں بھی اس کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ برصغیر میں حضرت علامہ اقبالؒ شاید پہلے شاعر تھے جو نوآبادیاتی نفسیات اور سامراج کی چالوں سے خوب آگاہ تھے۔ اس لیے ان کی شاعری اور نثر میں نو آبادیاتی سوچ کے بارے میں منطقی اور سائنسی اظہار خیال ملتا ہے۔ اقبالؒ اپنے ایک خط میں قائد اعظم محمد جناحؒ کو لکھتے ہیں: ”میں فلسطین کے مسئلے کے لیے جیل جانے کے لیے تیار ہوں اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ فقط ہندوستان کے لیے بلکہ اسلام کے لیے بہت عظیم ہے… یہ ایشیا کا دروازہ ہے جس پر ب±ری نیت سے اقدامات کیے جا رہے ہیں“۔ تقسیم فلسطین کی تجویز کے دنوں میں علامہ اقبالؒ کی صحت خاصی بگڑ چکی تھی۔ ان کی زندگی کے آخری ایام تھے لیکن اس کے باوجود وہ اس کے تصور سے مسلسل بے چین اور افسردہ رہے۔ اقبالؒ نے اس وقت ہی سے فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کر دی تھیں۔ جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا۔ اس محاذ پر بھی اقبالؒ نے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز سے کام لیا مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامہ کی بیداری اور کل ہند مسلم لیگ کی عملی جدوجہد کے باوجود برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا۔علامہ اقبال30 جولائی 1937ءکو فارکو ہرسن کے نام اپنے خط میں فلسطینی عوام کی وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں:”عربوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے میں اس کو اسی شدت سے محسوس کرتا ہوں جسے مشرق قریب کے حالات کا تھوڑا بہت علم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرنے پایا۔ انگریز قوم کو بیدار کر کے اس بات پرآمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرے جو اس نے انگلستان کے نام پر عربوں کے ساتھ کیے ہیں“۔حضرت علامہ ؒکے خیال میں فلسطینی عوام کے حقوق غصب کرنے میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ مجلس اقوامِ عالم (لیگ آف نیشنز) اور عرب ملوکیت بھی برابر کی شریک ہے۔ چنانچہ وہ ایک شعر میں کہتے ہیں:
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کے بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذرؓ و دلق اویسؓ و چادر زہراؓ
ایک جگہ عرب ممالک کے بادشاہوں اور ان کی پالیسیوں پر طنز کرتے ہوئے وہ رقم طراز ہیں:”عربوں کو چاہیے کہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ بحالات موجودہ ان بادشاہوں کی حیثیت ہر گز اس قابل نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی فیصلے یا کسی صائب نتیجے پر پہنچ سکیں“۔علامہ اقبالؒ نے اسرائیل کے قیام سے آیندہ عالم اسلام کو درپیش خطرات کا ادراک کرتے ہوئے اپنی زندگی کے آخری سال اپنے خدشات و جذبات کے اظہار کے لیے ایک طویل تاریخی بیان دیا جو 26 جولائی 1937ءکو لاہور کے موچی دروازہ کے مسلم لیگ کے تاریخی جلسہ عام میں پڑھا گیا۔ اس بیان میں علامہ اقبالؒ نے کہا ”میں آپ لوگوں کو اس امر کا یقین دلاتا ہوں کہ عربوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے میں اس کو اسی شدت سے محسوس کرتا ہوں جس شدت سے ہر وہ شخص اسے محسوس کرتا ہے جسے مشرق قریب کے حالات کا تھوڑا بہت علم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرنے پایا اور انگریز قوم کو بیدار کر کے اس بات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان وعدوں کو پورا کرے، جو اس نے انگلستان کے نام پر عربوں کے ساتھ کیے تھے بہرحال یہ امر کسی حد تک موجب اطمینان ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اس موضوع پر حال ہی میں جو بحث ہوئی ہے، اس میں تقسیم فلسطین کے مسئلے کا کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا گیا۔لہٰذا اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر مسلمانان عالم کو چاہیے کہ پوری بلند آہنگی کے ساتھ اعلان کریں گے کہ برطانیہ کے مدبر جس عقدے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کا تعلق صرف فلسطین تک محدود نہیں، بلکہ وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پورے عالم اسلام کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔
کالم
اسرائیل بارے علامہ اقبالؒ کا نظریہ
- by web desk
- اکتوبر 16, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 653 Views
- 2 سال ago

