اسلام آباد اپنا الگ سیاسی مزاج رکھتا ہے۔ ایک دور میں مقامی لوگ تعداد میں زیادہ تھے۔مگر اب غالب اکثریت ملک کے دیگر علاقوں سے آئے ہوئے آباد کاروں کی ہے۔ یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ اسلام آباد آباد کاروں کا شہر ہے۔جس میں آج کے دن سے گزشتہ پچپن ساٹھ سالوں سے لوگ ملک کے چاروں صوبوں،کشمیر ،گلگت بلتستان سے آکر آباد ہوتے رہے ہیں۔ جنکی دوسری اور تیسری نسل اسی شہر میں پیداہوئی۔انکا شناختی کارڈ پر اسلام آباد کا پتہ درج ہے۔انکی تعلیم،نوکری ،روزگار ، کاروباراور پہچان بھی اسلام آباد سے منسلک ہو چکے ہیں۔اسلام آباد کی آبادی برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔بے شمار زرعی زمینوں پر رہائشی ٹاونز اور سوسائٹیز بن چکی ہیں۔سال 2001 سے قبل یہاں قومی اسمبلی کا ایک حلقہ تھا۔2002میں دو اور 2018میں تین حلقے بن گئے ۔آبادی کے تناسب سے چار حلقوں کا مطالبہ بھی خال خال ہوتا رہتا ہے۔ہم زیادہ دور نہیں جاتے ۔2013 میں مسلم لیگ ن اور 2018میں تحریک انصاف کی حکومتوں کا تقابلی جائزہ لینگے ۔ جن میں سیاسی جماعتوں کے اسلام آباد کے قومی اسمبلی کے منتخب اراکین کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں رہی ۔ تعلیم،صحت ،روزگار و دیگر عوامی مسائل حل ہونے یا کم ہونے کی بجائے بڑھتے چلے گئے ۔ اب تو یہ عالم ہے کہ چوری،ڈاکے رہزنی ،قتل اور ایکسیڈنٹ کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔پرائس،کرائم اور فوڈ کوالٹی کنٹرول کا انتظامی ڈھانچہ مکمل ناکام نظر آتا ہے۔ لوگ سرکاری تعلیمی سیکٹر کی نسبت نجی سیکٹر پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ صحت کی سہولیات ناکافی ہیں ۔ہسپتالوں میں صفائی ہے نہ دوائی ہے ۔ ریمورٹ ایریاز میں کھیلوں کے میدان نہیں ہیں۔جسکی وجہ سے نوجوان طبقے کی توانائیاں دیگر غیر ضروری سرگرمیوں میں صرف ہو کر زہر آلود ہو رہی ہیں۔آبادی اور غربت کے تناسب سے پولی ٹیکنیکل کالجز کے قیام پر توجہ نہیں دی گئی۔سرکاری ملازمین کے بچوں کےلئے سرکاری ملازمت کے متبادل روز گار اور کاروبار کے مواقع پیدا نہیں کئے گئے ۔اس ضمن میں شہر میں کمیونٹی سنٹرز اور دیہی علاقوں میں سرکاری سکولوں اور دیگر عمارتوں میں شام کے اوقات میں ڈیجیٹل سکلز کے پروگرامز شروع کرنے کے مواقع ضائع کئے گئے ۔جس کے ذریعے غریب اور مڈل کلاس کے نوجوانوں کو ڈیجیٹل پروگرامز مفت یا سستے شروع کروا کر لیب ٹاپ مفت یا آسان اقساط پر دے کر روزگاز اور کاروبار کے مواقع پیدا کئے جاسکتے تھے۔بھارت حکومتی سرپرستی میں دنیا میں آئی ٹی میں ہم سے بہت آگے نکل گیا۔ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ وہ درد دل رکھنے والی،حالات کا رخ موڑنے والی مقامی قیادت اس شہر اقتدار میںتاحال نہ مل پائی۔راقم الحروف ایک سیاسی و سماجی کارکن ہے۔گزشتہ اٹھارہ سالوں سے کرپٹ سیاسی نظام کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے ۔ 2015میں یوسی 30 جی۔سیون تھری سے بحیثیت آزاد چئیرمین اور 2018 میں این اے 53سے قومی انتخابات میں حصہ لے چکا ہے میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ۔تحریک انصاف کے دور حکومت میں اسلام آباد کے تینوں حلقوں میں احتجاجی تحریک اور عوامی دباو¿ سے دیہاتی علاقوں میںبجلی کے بند میٹرز کو بحال کروا کر عوام کو بنیادی آئینی حق دلوایا۔پی ڈی ایم کے دور حکومت میں ماڈل کالجز کے بسوں کے کرائے رکوا کر غریبوں کو ریلیف دلوایا۔ اسی دورمیں سرکاری کواٹرز کے خلاف سٹیٹ آفس کی کاروائی رکوا کر قابل عمل منصوبہ دیا۔میری آزاد سیاسی و سماجی حیثیت اور کردار سے اہلیان اسلام آباد بخوبی واقف ہیں۔8فروری 2024کے عام انتخابات میں این اے 47اور این اے 48 سے آزاد امیدوار مصطفی نواز کھوکھر کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا ہے۔25 دسمبر کو موصوف میرے غریب خانے پر آئے ۔ان سے این اے 47 اور این اے 48 کے اجتماعی عوامی مسائل کے تدارک پر تفصیلی تبادلہ خیال میں حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی گئی۔اس وقت ملک اور اسلام آباد کے معروضی سیاسی حالات کے تناظر مصطفی نواز کھوکھر کی حکمت،سوچ اور نظریہ حقیقت پسندانہ ہے۔وہ اسلام آباد کے بڑے سیاسی گھرانے سے تعلق کیوجہ سے ان حلقوں میں اپنا خاص اثر و رسوخ اور ووٹ بنک رکھتے ہیں۔انکے انداز بیان میں حقائق اور دلائل نمایاں تاثر دیتے ہیں ۔اسلام آباد میں موجود مقامی قیادت کے فقدان میں وہ بہترین انتخاب ثابت ہو سکتے ہیں۔مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی سے ناراض اکثر و بیشتر کارکنان سرعام اور پس پردہ انکی حمایت کر رہے ہیں۔تحریک انصاف کے تینوں منتخب اراکین قومی اسمبلی اسد عمر،علی نواز اعوان اور راجہ خرم نواز کے پی ٹی آئی اور عوام کو حالات کے رحم و کرم پر بے یارومددگار چھوڑنے کے بعد تحریک انصاف کو ووٹ دینے والوں کی بڑی تعداد نے نے مصطفیٰ نواز کھوکھر سے امیدیں لگا لی ہیں۔ سوشل،پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا پر میری غیر مشروط حمایت کی خبر آنے کے بعد ناقدین نے انکے خاندان کے کردار کو ہدف تنقید بنایا اور سوالات اٹھائے۔جنکا میں نہیں سمجھتا براہ راست انکی ذات سے کوئی تعلق ہے۔وہ اسلام آباد کے ایک بڑے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔انکے والد حاجی نواز کھوکھرمرحوم ومغفورایم این اے اور ڈپٹی سپیکر رہ چکے ہیں۔وہ خود سینیٹر رہ چکے ہیں ۔سیاسی جماعت میں مسند عہدے کو خیر باد کہہ کر آزاد حیثیت میں الیکش لڑنے کا فیصلہ کرنا کوئی عام بات نہیں۔انکا سیاسی فکر و فلسفہ عام آدمی کی آواز بنکر ابھر رہا ہے۔دونوں حلقوں میں انکی انتخابی مہم زور و شور سے جاری ہے۔انکے سیاسی بیانہ کو ملکی اور عوامی سطع پر خاصی پزیرآئی مل رہی ہے۔سیاسی ہوا کا رخ انکی کامیابی کی نوید سنا رہا ہے۔بندہ ناچیز بذات خود میدان عمل میں انکی انتخابی مہم میںبڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے ۔لوگ پڑھے لکھے باصلاحیت ، دلیر اور بے باک قیادت کے اوصاف ان میں تلاش کر چکے ہیں ۔تاہم وہ جیت کر عوامی امنگوں کی ترجمانی نہ کر سکے تو میں انکا پہلا مخالف ہونگا۔انتخابات میں اللہ کی مدد اور عوام کی حمایت حق بات کہنے والے کو حاصل ہو۔
٭٭٭
کیا یہ درست ہے کہ یہاں عزت وقار سے
کالم
اسلام آباد کی سیاست
- by web desk
- دسمبر 28, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 652 Views
- 2 سال ago
