اسلام کسی ایسے مذہب کا نام نہیں ہے جو صرف انسان کی نجی اور انفرادی زندگی کی اصلاح کا داعی ہو اور جس کا کل سرمایہ حیات کچھ عبادات چند افکار اور مٹھی بھر رسوم پر مشتمل ہو بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو پوری زندگی پر محیط ہے خواہ وہ مسئلہ معاشرتی ہو ےا تمدنی مادی ہو یا روحانی معاشی ہو یا سیاسی انفرادی ہو یا اجتماعی۔جماعت فرد کی ضد ہے ۔ فرد کے مجموعہ یا اشتراک باہمی سے جماعت کا وجود عمل میں آتا ہے۔ فرد کے مقابلے میں جماعت یا اجتماعیت کی اہمیت اور افادیت مسلم ہے۔جب اسلام کے ہر رکن میں اجتماعیت کا درس موجود ہے تو تمام ارکان کی ادائیگی کے باوجود ہمارے اندر اجتماعی قدروں کا فقدان کیوں ہے؟کیا اجتماعی قدروں کا فقدان اجتماعیت کا درست مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے تو نہیں ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو موجودہ معاشرے کے مطالعہ سے ہمارے ذہن میں آتے ہیں۔آئیے ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم کہتے ہیں اسلام امن کا دین ہے،سلامتی کا راستہ ہے۔اب راستے کا مطلب کبھی انفرادی نہیں ہوتا۔راستہ ہمیشہ اجتماعی ہوتا ہے یعنی راستے پر سب کا حق ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اجتماعیت ہی اسلام ہے ۔ تفرقہ انسان کےلئے ناسور ہے کہ جس کا کوئی علاج ہی نہیں ۔ تفرقہ انفرادیت ہے۔تفرقہ (انفرادیت) کمزوری ہے ۔ اجتماعیت ایک رعب ہے ، طاقت ہے،اتحاد ہے،ایک توانائی ہے۔اب ایک طرز فکر یہ ہے کہ انسان ذاتی مفاد کےلئے سوچتا ہے۔وہ اپنے مفاد کی خاطر دوسرے کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔یہ خود غرضی ہے، منفی سوچ ہے ، انفرادیت ہے ۔ ایک طرز فکر یہ ہے کہ انسان اپنے فائدے کے ساتھ دوسروں کی فلاح کےلئے بھی سوچتا ہے ،مخلوق خدا کی بے لوث خدمت ومحبت اجتماعیت ہے۔ اجتماعی طرز فکر اللہ کی رسی ہے ۔ قرآن اور حدیث میں بھی جگہ جگہ تفرقہ(انفرادیت)کی نفی اور اجتماعی طرز فکر کا درس موجود ہے ۔ دراصل اجتماعیت اللہ کی طرز فکر ہے۔اللہ کی پسندیدہ عادت ہے ۔ آبرو باقی تیری ملت کی جمعیت سے تھی جب یہ جمعیت گئی دنیا میں رسوا تو ہو ۔ اپنی اصلیت پر قائم تھا تو جمعیت بھی تھی چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروانِ بو ہوا۔علامہ اقبال نے یہاں ملت سے مراد جماعت یا اجتماعیت لیا ہے۔ اسی لئے کہا ہے کہ جو موج دریا میں ہوتی ہے وہی رواں دواں ہوتی ہے۔ دریا سے باہر اس کی روانی، گیرائی و گہرائی باقی نہیں رہتی ۔ اسلام مسلمانوں کو نظم واتحاد کےساتھ جماعتی زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے وہ انتشار اور خودسرائی کو قطعاً برداشت نہیں کرتا ، اس لئے اس نے نظام عبادت کی روح اجتماعیت و شیرازہ بندی پر رکھا تاکہ مسلمان ایک مرکز سے وابستہ رہیں۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
غور کیجئے کہ نمازیں ہر شخص تنہا تنہا بھی ادا کرسکتا ہے۔ بلکہ یہ طریقہ ریا و نمود سے محفوظ اور اخلاص وللہیت سے قریب تر ہے، لیکن پنج وقتہ نمازوں کےلئے جماعت کو واجب قراردیا، جمعہ وعیدین کےلئے گا¶ں کی بڑی جامع مسجد اور عیدگاہ میں اکٹھا ہوکر ایک امام کے پیچھے باجماعت نماز ادا کرنے کو لازم ٹھہرایاتاکہ مسلمانوں کے اندر برادرانہ مساوات کی تربیت دی جاسکے اور دلوں میں اتحاد و ہم آہنگی کے جذبہ کو فروغ مل سکے ، رومی و حبشی، عرب و عجم کی کوئی تمیز نہیں ہے سب ایک ساتھ، ایک درجہ اور ایک صف میں کھڑے ہوکر خدا کے آگے سرنگوں ہوتے ہیں ۔ یہاں شاہ و گدا اور شریف و رذیل کی تفریق نہیں ، سب ہی ایک زمین پر، ایک امام کے پیچھے ایک صف میں دوش بدوش کھڑے ہوتے ہیں اور کوئی کسی کو اپنی جگہ سے نہیں ہٹاسکتا۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
نماز میں اجتماع کی وجہ سے اللہ کی طرف سے برکتوں کا نزول ہوتا ہے، آسمان سے رحمتیں اترتی ہیں اور ان کو اپنے سایہ میں ڈھانپ لیتی ہیں، ٹھیک اسی طرح زکوٰة میں بھی اجتماعی نظام کو ملحوظ رکھا گیا، اس کے ذریعہ قوم کے ضعیف و بے سہارا طبقہ کی پرورش و کفالت ہوتی ہے، اسلام نے اجتماعی طورپر ماہ رمضان میں روزہ رکھنے کا حکم دیا، ایسا ہوسکتا تھا کہ ہر ملک کے مسلمان آب و ہوا اور موسم کے لحاظ سے الگ الگ مہینوں میں روزے رکھ لیتے، لیکن تمام مسلمانوں پر ایک ہی مہینہ میں روزہ فرض کیا تاکہ جماعتی شان برقرار رہے، پوری دنیا کے مالدار مسلمانوں پر ایک خاص ایام میں حج کا حکم دیاگیا یہ بات بھی ممکن تھی کہ ہر ممالک کے مسلمانوں کےلئے الگ الگ مہینوں میں فریضہ حج ادا کرنے کی تاکید کی جاتی تاکہ ازدہام کم ہوتا اور مناسک حج کی ادائیگی میں کوئی دشواری پیش نہ آتی، لیکن حکم دیا گیا کہ نہیں، سبھوں کو ذی الحجہ کے ایام میں حج بیت اللہ کا طواف کرنا، صفا ومروہ کا سعی کرنا اور ارکان حج کو ادا کرنا ضروری ہے، تاکہ مسلمانوں میں اجتماعیت اور آفاقیت کا مزاج پیدا ہو اور سارے مسلمان وطنیت، قومیت، تمدن ومعاشرت کے تمام امتیازات کو مٹاکر سب ایک ہی ملت (ملت ابراہیمی) میں گم ہوجائیں اور ایک ہی بولی میں خدا سے باتیں کریں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی وحدت واجتماعیت کو ایک عمارت کی مانند قرار دیا۔ فرمایا المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ثم شبک اصابعہ ایک مومن دوسرے مومن کےلئے ایک عمارت کی طرح ہے جس طرح مکان کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کےلئے مضبوطی اور قوت کا باعث ہوتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے ملاکر سمجھایا، مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ جو مذہب عالمگیر وحدت و اخوت کا داعی و پیامبر ہے آج خود اس کے پیروکار گروہی و علاقائی عصبیت، خاندانی و نسلی برتری، زبان و بیان اور مسلکی اختلاف کی بنیاد پر انتشار و افتراق کے شکار ہوگئے، انھوں نے رنگ و نسل کے امتیاز و اختلاف کی اونچی اونچی دیواریں کھڑی کردیں فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
بتان رنگ وخوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی، نہ افغانی
سورةآل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” تم بہترین امت ہو (تم بہترین جماعت ہو) جو انسانوں کیلئے برپا کی گئی ہے جو نیکی کا حکم دیتی ہے اور برائی سے روکتی ہے، اللہ پر یقین رکھتی ہے“ (آیت 110)۔ اسی سورة آل عمران۔ میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ”اور دیکھو ضروری ہے کہ تم میں ایک جماعت ایسی ہو جو بھلائی کی باتوں کی طرف دعوت دینے والی ہو ۔ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، بلاشبہ ایسے لوگ فلاح پانے والے ہیں“۔ تبلیغ دین جو دینی فریضہ ہے اور جس میں اجتماعیت کا راز مضمر ہے اس کو بھی طاغوتی طاقتیں ختم کرنے کے درپے ہیں آپ نے غور فرمایا کہ اسلام کی تمام عبادات اور انتظام و انصرام میں اجتماعیت کو کس قدر اہمیت حاصل ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری دشمن طاقتیں ہمارے دینی نظریات سے نابلد ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے صیہونی اور طاغوتی طاقتیں ہماری اجتماعیت کے فوائد سے بخوبی آگا ہ ہیں اسی لیے وہ ہر ایسا حربہ استعمال کر رہے ہیں جس سے ہماری اجتماعیت پارہ پارہ ہو اور ہمیں فرقوں میں بانٹ کر کبھی فروعی مسائل میں الجھا کر کبھی پیسوں کا لالچ دے کر کبھی دنیاوی آسائشیں بہم پہنچاکر دین سے دوری کی رغبت پیدا کر کے اجتماعیت کے آفاقی پہلو کو مسلمانوں کی زندگی سے نکالنے کے در پے ہے اس لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی ، مذہبی ، عسکری طاقتیں اپنے اندر اتفاق اور اجتماعیت کو فروغ دیں اسی میں مسلمانان عالم کی کامیابی کا راز مضمر ہے ۔