کالم

اس کائنات میں !

وہ حسب عادت دور سے دےکھ کر مسکرانے لگا۔ وہ جس سے بھی مصافہ کرتا ہے، مسکراہٹ کے جام کا تبادلہ ضرور کرتا ہے ۔ مجھے اس کی ےہ ادا پسند ہے۔ آج اس کی مسکراہٹ مےں حےرت انگےز کےفےت کا عنصر غالب تھا۔مصافہ کے بعداس نے درےافت فرماےا کہ مےں 150برس عمر کے کسی انسان سے شرف ملاقات کے لئے بے تاب ہوں ۔خاکسار نے عرض کی کہ عصر حاضر مےں اےک صد برس عمرکے انسان بھی ناےاب ہےں اور آپ اس سے پچاس سال زےادہ کے عمر کے افراد کی تلاش مےں سرگرداںہےں۔مےرے خےال مےں شاہدہی دنےا مےں کوئی اےسا انسان ہو جس کی عمر 150 سال ہو، اس لئے آپ کی ےہ تمنا پوری نہ ہوگی۔ پھر اس نے حےرت سے مےری جانب دےکھا اور کہنے لگا کہ آپ کے والد صاحب کے دادا سے ملاقات کروالےں۔مےں نے بتاےا کہ وہ حےات نہےں ہےں۔ آج کل تو انسان کی اوسط عمر45 برس ہے۔اس نے کہا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ساڑھے نو سوسال تھی۔سورت عنکبوت مےں مذکورہ ہے کہ”جب حضرت نوح ؑ نے اس دار فانی سے رحلت فرمائی تو فرشتوں نے آپ ؑسے پوچھا، اے شےخ الانبےاء!آپ ؑنے دنےا کو کےسے دےکھا۔حضرت نوح ؑ نے فرماےا کہ مجھے تو اےسا معلوم ہوا کہ اےک دروازے سے داخل ہو ا تو دوسرے دروازے سے نکل آےا ” اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اورکہا کہ آج صرف 60,50،70سال کی زندگی کےلئے بھی انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ دھوکا اورفریب کرتا ہے۔اےک انسان دوسرے انسان کا قتل کرتا ہے۔رشوت اور سفارش کو عام کرتا ہے۔فراڈ اور بے اےمانی کرتا ہے ۔ جھوٹ اور فرےب سے باز نہےں آتا ہے۔ دوسروں کو پرےشان کرنے کا موقع ضائع نہےں کرتا ہے۔دوسروں کا لہو چوسنے سے لطف اندوز ہوتا ہے۔”ہلاکو سے کسی نے پوچھا کہ آپ بے گناہ انسانوں کو کےوں قتل کرتے ہو تو اس جابر نے جواب دےاکہ مےں جب کسی انسان کو قتل کرتا ہوں ۔ جس ساعت اس کے جسم سے روح جدا ہوتی ہے ، اسی عالم وہ تڑپتا ہے۔مےں اس کے اس تڑپنے سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔” تاریخ عالم شاہد ہے کہ انسانوں نے انسانوں کا لقمہ اجل بنایا، انسان کو انسان سے خطرہ رہتا ہے۔انسان اقتصادی دہشت گردی کررہا ہے، سیاسی دہشت گردی کررہا ہے اور مذہب دہشت گردی کررہا ہے۔ انسانوں نے اقتصادی مفادات کےلئے کروڑوں انسانوں کو قتل کیا، سیاسی مفادات کےلئے لاکھوں کروڑوں انسانوںکی زندگی تمام کی ، مذہبی مفادات کےلئے انسانوں نے کیا کچھ نہیں کیا؟ عصر حاضر میں بزنس کے نام پر دوسرے انسانوں کے منہ سے نولہ چھیننے کی سعی ہورہی ہے۔ اللہ رب العزت نے 13 لاکھ اقسام کی مخلوقات پیدا کی ہیں،ان میں سے انسان کو اشرف المخلوق کے درجے سے نوازا ۔ 13 لاکھ اقسام کی مخلوقات حسب ضرورت خوراک لیتے ہیں،اس وقت انسانی آبادی آٹھ ارب سے زیادہ ہے ، اگر انسان روزانہ اوسطاً500 گرام خوراک لیں تو چار ارب کلوگرام خوراک صرف انسان ایک دن میں کھاتے ہیں،بعض ایسے مچھلیاںہیں جو ایک مچھلی روزانہ لاکھوں ٹن خوراک کھاتی ہے، اگر ان کی تعداد ایک لاکھ ہوں تو وہ صرف ایک دن میںاربوں ٹن خوراک کھاتی ہیں۔13 لاکھ اقسام کی مخلوقات میں صرف انسانوں کی تعدادآٹھ ارب سے زیادہ ہے تو دوسرے مخلوقات کی کل تعداد کتنی ہوگی اور وہ روزانہ کتنی خوراک کھاتے ہونگے ؟ کیا یہ سب بزنس کرتے ہیں یا ملازمت کرتے ہیں یا کوئی اور ذرائع سے کماتے ہیں بلکہ ان سب مخلوقات کو رزق دینا والا صرف اور صرف ایک ہی ذات ہے،وہی سب کو رزق دیتا ہے اور وہی سب کو پالتا ہے۔ اپنے عادات اوراعمال کے باعث انسان کی عمر کم ہورہی ہے۔ہمارے ملک میں انسان کی اوسط عمر 45 سال ہے۔ اللہ رب العزت نے رات کو آرام ، سکون اور سونے کےلئے بنائی ہے لیکن آج کل زیادہ تر لوگ رات کو کم سوتے ہیں ،اسی وجہ سے زیادہ تر افراد اعصابی، ذہنی، بلڈپریشر ، ذیابیطس اور دیگر امراض میں مبتلا ہیں۔ان خلفشار کے باوجود انسان اپنی مختصر زےست کےلئے ہر قسم کے گناہ کےلئے آمادہ اور بے تاب نظر آتا ہے۔دنےا جہان کے مال کوسمےٹنے کےلئے کوشاں رہتا ہے۔جس قوم مےں انسان درندہ بن جائے توان لوگوں سے آپ کےا اچھائی کی توقع رکھےں گے۔”جب کسی قوم مےں سود اور زنا عام ہوجائے تو وہ خدائی عذاب کو پکارنے لگتی ہے ۔ ©”اور اسی طرح ” جب اللہ کسی قوم کو اس کے برے اعمال کی وجہ سے تباہ کرتا ہے تو اس کے حکمرانوں کو عےاشیوں مےں مبتلا کردےتا ہے ۔ "قارئےن کرام!سب نے اس فانی دنےا سے خالی ہاتھ جانا ہے۔ کوئی ساتھ لے جاتا ہے تو وہ صرف اس کے اعمال ہےں۔انسان کے ساتھ ان کے اچھے اور برے اعمال جائےں گے۔آپ کو واحد مثال بھی نہےں ملے گی جس مےں کسی بشر نے اس فانی دنےا سے مال ودولت اور زرو زن کو ہمراہ لے گےا ہو۔سب نے جانا ہے اور ےہاں کوئی نہےں رہے گا۔ ظلم ، کرپشن ، رشوت، سود ،گھمنڈ اور مخلوق خدا کو تنگ کرناچھوڑ دو کےونکہ آپ نے بھی اس فانی دنےا سے جانا ہے۔سب نے اللہ رب العزت کے حضور پےش ہونا ہے۔ جس نے نےک اعمال کےے ہونگے ، وہ کامےاب اور کامران ہوجائےں گے اور جس نے گناہ کےے ہونگے ، اُن کا انجام بدترےن ہوگا۔ وہاں کوئی کسی کے کام نہےں آئے گا ۔وہ نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔ہر انسان کو اپنی پڑی ہوگی کہ کسی طرح اس کو چھٹکارہ مل جائے لےکن صرف ان کو نجات ملے گی جس نے مخلوق ِخدا کے ساتھ بھلائی کی ہوگی،اس لئے اب وقت ہے کہ اپنے اداﺅں پر غور کریں،پھر موقع نہےں ملے گاکےونکہ سب نے جانا ہے اور سب نے خالی ہاتھ جانا ہے۔اس کائنات میں مہمان کی طرح رہیں، فطرت کے اصولوں کے مطابق زیست بسر کریں تاکہ تمام جہانوں میں کامیابی ملے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے