کالم

اشرافیہ اورعوام

ملک میں ا س وقت اکثریت امرا کی ہے ان کا طرز زندگی اس طرح ہے کہ غریب اس کی پارک کی گئی گاڑی سے بھی کئی گز دور ہو کر گزرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انجانے میں ہاتھ بھی ٹچ ہو گیا تو مشکل کو خود آواز دینے کے برابر ہوگا حکومت کے نمائندے قرض مانگنے جاتے ہیں تو اعلیٰ لباس کے ساتھ فائیوسٹار ہوٹلوں میں رہنا ان کی مجبوری ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو یہ عمل ملک اور قوم کی بدنامی کا باعث بن سکتا ہے ایسا کرنا وقت کی ضرورت ہے وہ یہ سب دل سے نہیں کرنا چاہتے کیونکہ قوم کے ادھار والے پیسے کو بے دریغ خرچ کرنا انکے ضمیر کے اگرچہ خلاف ہے لیکن مجبوری میں تو سب جائز ہوتا ہے۔ادھار ملتے ہی حکومت دیگر اخراجات کیساتھپرانی گاڑیوں کو نئی گاڑیوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ وزرا خوش ہوں اس سے منزل مرا د تک پہنچنے میں وقت کی بچت ہوتی ہے جو قوم کی امانت سمجھ کر کسی دوسری جگہ مثبت انداز میں صرف ہو سکتا ہے اور اسکے نتائج اور ثمرات بھی نمایاں ہونا شروع ہو جاتے ہیں صاحب اقتدار افراد کو ترقی اور خوشحالی کے عوامی منصوبوں کیلئے بجٹ مختص کرنے میں بہت آسانی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ پچھلی سات دہایئوں سے ملک کے کونے کونے میں خوشحالی اور ترقی لشکارے ماررہی ہے لوگ مطمئن ہیں کہ ان کی قوت خریدوقت کے ساتھ اور حالیہ دور میں کمزور نہیں ہوتی بلکہ بین الاقوامی سطح پر روپے کی قدرمیں اضافہ ہوا ہے بے قدرے لوگ کیا جانیں دنیا میں کیسے عزت کروائی جاتی ہے لوگ صرف روٹی کپڑا اور مکان کے گرد طواف کرتے رہتے ہیں یا یہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ گزر اوقات مشکل ترین ہوچکی ہے حکومت سے زیادہ سمجھدار کون ہو سکتا ہے وہ کہتے ہیں مہنگائی کم ہو چکی ہے ایک ڈیجٹ پر مہنگائی ہے عوام اسے دو ڈیجٹ بناتے ہیں اکثریت تو ہوتی ہی جھوٹی ہے ان کی باتوں اور بے بنیاد شور شرابے کا کیا جواب دیا جائے بس کبھی کبھار عوامی بے بنیاد دعوئوں کا جواب کہ جو کہ اکثر دوروغ گوئی پر مبنی ہوتے ہیں جواب دینا ضروری ہوتا ہے تاکہ بین الاقوامی اور قومی سطح پر حکومتی وقار مجروح نہ ہو عوام تو شغل میلے میں لگے ہی رہتے ہیں بیکار قوم صرف بے بنیاد باتیںہی بناتی رہتی ہے سچ تو ان کے قریب سے بھی نہیں گزرتا صرف حکومت نے سچ بولنے کا نہ صرف عہد کیا ہے بلکہ شب و روز نیک نیتی اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ملک ،قوم کی ترقی خوشحالی کیلئے جان مار رہے ہیں قوم احسان فراموش ہے یہ کبھی کسی کے نہیں بنے۔وقت ایک جیسا نہیں رہتا کیااس کی پاپولیرٹی زوال پذیر ہوئی اسے بھی انتظار کی سولی پر لٹکتے رہنا ہوگا اچھا برا وقت گزر ہی جاتا ہے تاریخ دان سب حالات قرطاس پر اتاریں گے ۔حکومت نے مالی مشکلات پر قابو پانے کیلئے غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانے کو ترجیح کہا ہے حکومت کے پاس امرا کی عیاشیوں کی معلومات موجود ہیں بڑی بڑی گاڑیوں کی خرید اور بیرون ملک تفریح کے سفر سب بند کرنے ہوں گے زراعت ہول سیلر ریٹیلر اور پراپرٹی کے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہو چکا ہے یہی نہیں بلکہ رائٹ سائزنگ ایجنڈے میں مزید سرکاری ادارے بند کرنا ہوں گے جن پر کابینہ کی منظوری کے بعد عملدرآمد ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا عام آدمی کی مشکلات کب کم ہونگی،مشکل حالات پر قابو پانا بظاہر مشکل نظر آتا ہے لیکن یہ حکومت وقت کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ پُر عزم رہ کر عمل پیہم سے مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے یہ بھی بہت ضروری ہے کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی لائے عوامی دولت کو ماموں جی کا مال سمجھ کر خرچ نہ کیا جائے بلکہ جہاں جہاں اخراجات میں کمی لائی جا سکتی ہو ضرور کمی لائی جائے اور وہ نظر بھی آئے پاکستان کی ایکسپورٹ میں بھی وقت کے ساتھ اضافہ ہونا چاہیے ایکسپورٹرز کو مناسب اور ضرورت کے مطابق مراعات ملنی چاہیں تاکہ ملک کی آمدنی میں اضافہ ہو اور قرض کی دبیز تہیں بھی ہلکی ہوں عوام تو ہمیشہ ہی سے ملک کیلئے قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں یہ وقت امرا کیلئے سوچنے اور عمل کر نے کا ہے کہ وہ ملک کے قرض اتارنے میں حکومت کی مدد کریں۔ عام آدمی خصوصاً نئی نسل بزرگوں اور صاحب اختیار اشرافیہ سے کیا سیکھ رہی ہے ۔ اللہ ہمارے ملک پر رحم فرمائے ہم کبھی بھی ایک قوم نہیں بنے صرف قومی ترانوں میں میوزک کے ساتھ سننے ایک قوم بننے کا موقع ملتا ہے وہ بھی چار پانچ منٹ کیلئے لیکن حقیقت اس تشہیر سے قطعی مختلف ہے سوشل میڈیا نے الگ گند پھیلایا ہوا ہے ۔ ملک کے حالات تسلی بخش نہیں ملک کی دشمن طاقتوں سے عسکری جوانوں کے مقابلے میں آئے دن شہدا کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ کیا قوم کو احساس ہے کہ ہم کن حالات سے گزر رہے ہیں۔ ملک کے قرض سے اگر نجات مل جائے تو ہمارے ملک کی ترقی خوشحالی قلیل مدت میں عیاں ہو سکتی ہے عوام ہمیشہ ہی سے حکومت سے تعاون کرتے چلے آرہے ہیں ان حالات میں بھی وہ روایات کو قائم رکھے ہوئے ہیں ہر فیملی مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے شب و روز عزت سے گزارنا مشکل ترین بن چکا ہے لیکن یہ قوم نا امید نہیں بداعتمادی کے اس دور میں ہر شخص پریشان ہے بے قرار ہے کہ لگتا ہے اک وبا ء پھیل چکی ہے بے بسی کی وباء بے حسی کی وبا آج ہمیں اقبال اور جناح کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے