کالم

اظہار رائے کی آزادی پابندی سے مشروط

وطن عزیز میں اظہار رائے کی آزادی کا استعمال بجا طور پر ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے،پاکستان ثقافت،تہذیب اور انواع واقسام کی زبانوں کے اعتبار کثیر جہتی ملک ہے جس میں اتفاق واتحاد اور ہم آہنگی کی فضا برقرار رکھنا ہرخاص وعام کی ذمہ داری ہے، ارض وطن کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں نہ صرف کئی مذاہب ہیں بلکہ ٹیکسلا اور موہنجوداڈو کی طرح کئی قدیم تہذبیوں کی موجودگی ہماری بین الاقوامی شناخت کا باعث ہیں اب اہل پاکستان پر لازم ہے کہ وہ اظہار خیال کی آزادی کے نام پر رائج اخلاقی اور قانونی قوائد وضوابط کا پاس رکھیں، وطن عزیز میں جہاں لوگوں کی اکثریت سیاسی، مذہبی اور سماجی اختلافات بارے زمہ داری یا پھر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے وہی ایسوں کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا جو سوشل میڈیا پر جو دل میں آئے کہنے یا کرگزرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ اظہار رائے عصر حاضر کا قیمتی اثاثہ ہے،سمجھ لینا ہوگا کہ یہ نعمت اقوام عالم کو مفت میں یا پھر باآسانی ہرگز نہیں ملی، سچ یہ کہ ہے کہ اسے حقوق انسانی کا عالمی اعلامیہ تسلیم کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک کی آئینی دستاویزات میں تحفظ فراہم کیا گیا ہے، اظہار رائے کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک ہے، اقوام عالم اس سوال کا جواب بھی تلاش کررہی ہے کہ کیا اظہار رائے کی آزادی کسی مذہب یا پھر پیغمبر کی توہین یا مذہبی کتب کی توہین کا حق دیتی ہے، یہ سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی اظہارخیال کی آزادی پابندیوں کے بغیر نہیں، حد یہ ہے کہ امریکہ جیسی جمہوری ملک میں بھی آزادی اظہار رائے کے غلط استعمال کرنے پر سزائیں ہیں، اظہار رائے کی آزادی کے پس منظر میں اس اصول پر عمل کیا جاتا ہے کہ ہر شخص برابر کی عزت کا حقدار ہے،اقوام متحدہ کے بین الاقوامی چارٹر کی شق 19 کے مطابق”ہر شخص کو رائے رکھنے اور اظہار رائے کی آزادی کا حق حاصل ہے،اس حق میں یہ امر بھی شامل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی رائے قائم کرے اور ملکی سرحدوں کا خیال کیے بغیر علم اور خیالات کی تلاش کرے، انھیں حاصل کرے اور اس کی تبلیغ کرے ” اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 1966 میں پاس کی گی قرارداد کے مطابق” کوئی ایسی تحریر یا تقریرجو کسی ملک میں رہنے والے کسی فرد یا گروہ کی مذہبی، نسلی یا گروہی مخالفت یا دل آزاری کا باعث بنے یا پھر اس کے خلاف نفرت وحقارت کا اظہار کرے تو مذکورہ ملک کا فرض ہے کہ اس کو روکے اور اس کے خلاف قانون سازی کرے”،کئی یورپین ممالک میں اظہار آزادی رائے پر بہت ساری پابندیاں ہیں،ایک تاثر یہ ہے کہ مغرب اپنے ہاں اظہار خیال کی آزادی کا دعوی تو کرتا ہے مگر وہ معاملات جو براہ راست اس کے مفادات سے متصادم ہیں اس پر کسی کو بات کرنے اجازت نہیں، مثلا ہولو کاسٹ پر سوال اٹھانا منع ہے، اسی طرح دوسری جنگ عظیم میں مرنے والا لاکھوں انسانوں پرگفتگو کرنے کو بھی پسند نہیں کیا جاتا، مغرب میں اظہار خیال کو درپیش چیلنج کا ایک ثبوت یہ ہے کہ 27 جنوری 2003 میں ٹیلی گراف اخبار نے اسرائیلی وزیر اعظم کا خاکہ شائع کیا جس میں اسے فلسطینی بچوں کی کھوپڑیاں کھاتے ہوئے دکھایا گیا، اب یہ کارٹون شائع ہونا تھا کہ اسرائیل اور اس کی ہمنواوں نے آسمان یوں سر پر اٹھا لیا کہ بالا مذکورہ اخبار کو معذرت کرنا پڑی،اس کے برعکس اسلام نے انسانوں کو چودہ سو سال قبل اظہار خیال کی آزادی دی ، سورہ حجرات میں اظہار رائے کی آزادی کا فلسفہ یوں بیان کیا گیا کہ کسی کو کسی کا تمسخر اڈانے کی اجازت نہیں، کوئی کسی کی غیبت نہیں کرسکتا،کسی پر بہتان یا الزام تراشی کی اجازت نہیں،کسی کی ذاتی زندگی میں عیب نہیں ٹٹول سکتا، حتیٰ کہ کسی دوسرے شخص کو برے القاب سے پکارنا بھی منع کردیا گیا، اظہار خیال کی آزادی کی حد وہی تک ہے جہاں سے کسی کی تذلیل کی شروع ہوتی ہے، یوں بھی کہا جاتا ہے کہ ایک شخص کی آزادی وہی تک حاصل ہے جہاں سے دوسرے شخص کی ناک شروع ہوتی ہے،وطن عزیز میں باشعور پاکستانیوں کی اکثریت اظہار رائے کی آزادی کی اہمیت اور اس کی حدوو وقیود سے باخوبی اگاہ ہے مگر مسئلہ ان کا ہے جو محدود سیاسی، مذہبی، گروہی یا کاروباری مفادات کے لیے کسی دوسرے کی دل آزادی کو ہرگز برا نہیں سمجھتے، یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ ماضی میں بعض غیر ملکی قوتوں کی آشیربار کے نتیجے میں ہمارے ہاں مذہبی وسیاسی منافرت پھیلائی جاتی رہی مگر اب ایسے رجحانات پر قابو پالیا گیا ہے، ہر گزرتے دن کساتھ پاکستانی سماج ہی نہیں ریاست اور حکومت دونوں اظہار خیال کی آزادی کے نام پر کھیلا جانے والا گھناونا کھیل برداشت کرنے کو تیار نہیں، یقینا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں یہ فرق کرنا قدرے مشکل ہے کہ کون سے الفاظ ملکی مفادات کے خلاف ہیں اور کون سے حق میں ہیں،مقام شکر ہے کہ مملکت خداداد کی سیاسی ومذہبی جماعتوں کی اکثریت اظہار خیال کی اہمیت وافادیت سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ اس حق کی عوام کےلئے موجودگی یقینی بنانے کےلئے بھی کوشاں ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے