کالم

الیکشن ،ووٹرزاورسماجی تنظیمیں۔۔۔!

انتخابات کے معاشروں اورممالک پردوررس نتائج مرتب ہوتے ہیں اور ان کے اثرات بھی گہرے ہوتے ہیں۔انتخابات کے ذریعے لوگ اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں،پھروہی نمائندے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عوام کی ترجمانی کرتے ہیں۔عوامی نمائندے حکومت بناتے ہیں، وہ طے شدہ نظام کے تحت ریاستی امور چلاتے ہیں، ملک اور عوامی مفادات کےلئے قانون سازی کرتے ہیں،یہ سب کچھ محض صاف اور شفاف الیکشن کے ذریعے ممکن ہے۔پاکستان دنیا کے ان چند ممالک کی فہرست میں شامل ہے، جہاں آئین کے مطابق جمہوری نظامِ حکومت قائم ہوتی ہے۔پاکستان میں قومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبران ملک اور عوام کے مفادات اور ضروریات کے لئے قانون بناتے ہیں،قومی اسمبلی اور سینٹ کی منظور ی کے بعد صدر مملکت دستخط ثبت کریں تو پھر قانون بن جاتا ہے۔اسی طرح صوبائی سطح پر صوبائی اسمبلیوں سے منظوری کے بعد متعلقہ گورنردستخط کریں تو وہ صوبائی سطح پر قانون بن جاتا ہے۔پاکستان میں 1973ءکے آئین کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت پانچ سال مقرر ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی معیاد ختم ہونے کے بعدان کے انتخابات کرائے جاتے ہیں۔اس وقت پاکستان کی آبادی تقریباً24کروڑ ہے،اس میںتقریباً9 کروڑ افراد شہروں میں رہتے ہیں جبکہ تقریباً پندرہ کروڑ افراد دیہاتوںمیں رہتے ہیں،ان پندرہ کروڑ کی نصف ساڑھے سات کروڑ خواتین ہیں،جو دیہاتوں میں رہتی ہیں۔ان خواتین کا جمہوری عمل اور انتخابات کے عمل میں اہم رول ہونا چاہیے تھا لیکن پاکستان میں ماضی کے انتخابات میں بعض علاقہ جات میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کے حق سے بھی محروم رکھا گیا،ان میں ڈھرنال اور دھولرضلع چکوال اور اب یہ علاقے ضلع تلہ گنگ میں شامل ہیں،اسی طرح ضلع سرگودھا میںلہلیانی کی یونین کونسل میں خواتین نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔اب لہلیانی دو یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ضلع میانوالی میں علاقہ پائی خیل میں بھی خواتین کو ووٹ ڈالنے نہیں دیئے گئے۔ضلع خانیوال تحصیل کبیر والا میںمہر ی پوری میں خواتین کو ووٹ کا حق استعمال کرنے نہیں دیا گیا اور صوبہ خیبر پختوانخواہ کے ضلع دیر میںخواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا۔ خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے پر پودا پاکستان اور دیگرسماجی تنظیموں نے آواز بلند کی اور ان کے لئے تگ و دو کی، اس کے نتیجے میںالیکشن ایکٹ2017نافذ کیا گیا،جس کے مطابق ہر سیاسی پارٹی کو پابند کیا گیاکہ وہ کم ازکم پانچ فی صد پارٹی ٹکٹ خواتین کو دیں،جن پولنگ اسٹیشن میں خواتین کے مجموعی طور پر دس فی صد سے کم ووٹ کاسٹ ہوجائیں تووہاں کاالیکشن کالعدم قراردیا جائے گا اور وہاں پر دوبارہ الیکشن ہوگا۔اس کا اثر اور فائدہ یہ ہوا کہ الیکشن2018ءمیںمذکورہ علاقوں میں بھی خواتین نے ووٹ کاسٹ کیے۔انتخابات 2024 ءمیںالیکشن کمیشن ان علاقوں کی مانیٹرینگ کرے تاکہ خواتین ان علاقوں میںآزادانہ طور پر ووٹ کاسٹ کرسکیں ۔ الیکشن 2024ءمیں 111سیاسی پارٹیوں نے275خواتین کوپارٹی ٹکٹ دیے جو کل امیدواروں کا 4.6 فیصد ہے ۔صوبہ خیبر پختوانخواہ کے ضلع بوننیر کی ڈاکٹر سویرا پرکاش کو بھی ٹکٹ دیا گیاہے ۔اس الیکشن میں پودا پاکستان ، اداروں اورسماجی تنظیموں نے شعوروآگہی کے لئے قابل تعریف کام کیا ہے ۔ پودا پاکستان ایک غیر منافع بخش پاکستانی تنظیم ہے جو پائیدار جمہوریت اور قانون کی عمل داری کےلئے بالخصوص دیہی علاقوں میںخواتین کی شرکت کے ذریعے جمہوریت کے عمل کو مستحکم اور فعال بنانے اور دیہی خواتین میں جمہوری شعورپیدا کرنے کےلئے کام کرتی ہے۔الیکشن 2024ءمیں پودا پاکستان کی خواتین ممبران بھی حصہ لے رہی ہیں جوکہ خوش آئند ہے۔ان خواتین میںزیادہ تر کاتعلق غریب فمیلیز اور دیہاتوں سے ہے، ان میںماروی عابد بدین سندھ سے آزاد امیدوار ہیں جو پودا پاکستان کی پچھلے دس سال سے ممبر ہیں۔ اسی طرح پودا پاکستان کی دیگر ممبران جن میں سے نسیم ریاض ضلع خیبر صوبہ خیبرپختوانخواہ،کنیزہ فاطمہ پارٹی ٹکٹ پر ضلع کوئٹہ صوبہ بلوچستان، شاہدہ ارشادکوئٹہ صوبہ بلوچستان،یاسمین طاہرہ گھوٹکی صوبہ سندھ اور فرح اخترصوبائی اسمبلی کے لئے کراچی سے آزاد امیدوار ،فرح اختر پی ایس 101 سے امیدوار ہیں۔ضلع بدین سے سوٹی گوٹی آزاد امیدوار ہے،انھوں نے ایک وائس میسج بھی جاری کیا،اس کا خلاصہ یوں ہے کہ©” سندھ کے ضلع بدین کے دیہاتوں میںلوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ،لوگوں کے حالات کے باعث الیکشن میں حصہ لے رہی ہوں ، انھوںنے مزید کہا کہ ہم خواتین کسی سے کم نہیںہیں، خواتین کا تعلق کسی بھی علاقے سے ہو، وہ کمزور نہیں ہوتیں، ان کو بھی الیکشن میں حصہ لینا چاہیے۔ مجھ پر بھی کافی پریشر ڈالا گیا ، مجھے دھمکیاں بھی دی گئیںکہ میں الیکشن سے دستبردار ہوجاﺅں لیکن میں الیکشن لڑنے سے دستبردار نہیں ہوئی جبکہ ووٹ کی صحیح حق دار خواتین امیدوار ہیں کیونکہ خواتین کو گو ناگوں مسائل ، مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرناپڑتا ہے۔خواتین کے مسائل ایک خاتون ہی بہتر سمجھتی ہے۔ہم گھر گھر جاکر خواتین کو بتارہے ہیں کہ اپنا ووٹ کیسے اور درست طریقے سے کاسٹ کریں۔انھوں نے اپنے پیغام میںیہ بھی کہا کہ اگر خدانخواستہ میں معذور ہوتی تو میں پھر بھی الیکشن لڑتی۔مجھے اللہ پاک نے ہمت دی ہوئی ہے۔”مذکورہ خاتون دوسری خواتین کے لئے رول ماڈل ہے، ان کو دیکھ کردیگر خواتین کو بھی ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اپنا قیمتی ووٹ ضرور کاسٹ کرنا چاہیے۔ چھ فروری کو ادارہ پودا پاکستان کی جمہوریت کی تعلیم اور فروغ ٹیم نے ضلع تلہ گنگ گاﺅں دھولر میں 54سال سے زائد عمر کی خاتون کو پہلی بار ووٹ ڈالنے کا طریقہ سکھایا، اسی گاﺅں میں ووٹ کی تصدیق کےلئے8300 کی مشق بھی کرائی۔ ان خواتین نے ٹیم کا شکریہ بھی ادا کیا کہ ہم خواتین میں سیاسی شعور اجاگر کیا، ہمارے علاقے میںترقیاتی کام تو ہوتے رہیں گے لیکن عورت کو فیصلہ سازی سے محروم رکھا گیا، آپ کی محنت رائیگاں نہیں جانے دیں گی اور ہرالیکشن میں خواتین بھرپور طریقے سے اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے