اداریہ کالم

الیکشن پر امریکا اور یورپی یونین کی تنقید ، حکومت کادوٹوک جواب

امریکا نے پاکستان میںآٹھ فرروی کو عام انتخابات کے انعقاد کے دوران دھاندلی کے الزامات کی مکمل تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا ہے،لیکن پاکستان نے اسے مسترد کر دیا اور کہا ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوئے ہیں،کسی کے کہنے پر تحقیقات کرنے کی ضرورت نہیں ۔ امریکا تحقیقات پرضرور زور دے رہا ہے لیکن عام انتخابات کے کامیاب انعقاد پر پاکستانی عوام کو مبارک باد بھی دی ہے اور نہ ہی ان الیکشن کو مسترد کیا ہے۔یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ امریکا پاکستان کے جمہوری عمل کا احترام کرتا ہے، اس حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے جسے پاکستانی عوام نے منتخب کیا ہو۔ قانون کی حکمرانی اور آئین کے احترام پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انتخابی عمل میں کچھ بے ضابطگیاں دیکھیں، پرتشدد واقعات، موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی بندش کا انتخابی عمل پر منفی اثر پڑا۔اس پس منظر میں گزشتہ روز نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوئے ہیںانتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر کا مطلب دھاندلی نہیں ہوتا دھاندلی کا الزام لگانا آسان مگرثابت کرنا مشکل ہوتا ہے پہلے بھی 35 پنکچرز کا رونا رویا گیا تھا،اسی طرح انہوں نے امریکہ اور یورپی یونین کے مطالبے کے ضمن میں کہا کہ کسی ملک کے کہنے پر مبینہ دھاندلی کی تحقیقات نہیں کریں گے یورپی یونین امریکا اور برطانیہ ہمارے دوست ممالک ہیں لیکن وہ اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے۔ نگراں وزیراعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے ان کا ابتدائی تجزیہ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کی معلومات پر مبنی ہوتاہے ان ممالک نے سوشل میڈیا خبروں کو صحیح مان لیاایسے چیلنجزتو کیپٹل ہل میں بھی موجودتھے کیا ہم نے کہاکہ امریکا عدالتی کمیشن بنائے کہ امریکا کا آئندہ صدرکون ہوگا۔الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کے سوال پر کہا کہ اس کا فیصلہ آئندہ پارلیمان کرے گی ۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ انتخابی نتائج پولنگ کا عمل ختم ہونے کے بعد 36 گھنٹے میں مرتب ہوئے جبکہ 2018 میںیہ عمل66 گھنٹے میں مکمل کیا گیا تھاسوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر انتخابی نتائج کے حوالے سے بڑھا چڑھا کرتجزیے پیش کئے گئے، الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔موبائل فون سروس شہریوں کی حفاظت کیلئے بندکی براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کی سہولت پورے ملک میں دستیاب تھی ،8فروری کو کوئی نئی بات نہیں ہوئی، ایسا تو اس سے پہلے بھی یہاں ہوتا رہا ہے ہر الیکشن کے بعد باتیں کی جاتی ہیں،آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام کا فیصلہ منتخب حکومت ہی کرے گی، پی آئی اے کی نجکاری کیلئے مکمل پلان تیار کیا گیا ہے، آئندہ حکومت ہی اس پر عملدرآمد کیلئے کوئی پیشرفت کرے گی۔تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی گئی، وزیراعظم نے کہا کہ جب انہوں نے وزیراعظم کا منصب سنبھالا تو یہاں پر سیاسی مفرو ضے اور سیاسی تھوریاں پیش کی گئیں کہ انہیں چار، پانچ سال کیلئے لایا گیا ہے لیکن اب کوئی بھی اس پرپشیمانی کا اظہار نہیں کرے گا کہ ہمارے تجزیے اور نام نہاد ذرائع غلط ہو گئے ہیں۔دوسری طرف ترجمان الیکشن کمیشن نے بھی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ انتخابی عمل مکمل شفاف رہاتاہم اکا دکا واقعات سے انکار نہیں جس کے تدارک کے لئے متعلقہ فورمز موجود ہیں۔ ترجمان الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق نتائج میں تیزی کی خاطر انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنا یا نتائج کی درستگی کو مشکوک بنانا نامناسب تھا۔ کئی جگہوں پر ریٹرننگ آفیسرز کے دفاتر کے سامنے بے پناہ ہجوم بھی اکٹھا ہوا جسکے باعث پولنگ عملے کو پولنگ میٹریل جمع کرانے میں مشکلات پیش آئیں جن کا انتخابی نتائج کی ترتیب و تدوین پر فرق پڑا پریذائیڈنگ آفیسرز کے فونز میں انسٹالڈ ای ایم ایس موبائل ایپ کو فارم۔45الیکٹرانک طور پر بھیجنے کےلئے سیلو لر کنیکٹوٹی کی ضرورت تھی چونکہ سیلولر سگنلز کو سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر بند کر دیا گیا تھا اسلئے پریذائیڈنگ آفیسرز، ریٹرننگ آفیسرز کو الیکٹرانک ڈیٹا بھیجنے سے قاصر رہے۔عالمی میڈیا اور کئی ممالک کی طرف سے الیکشن کے حوالے سے تنقید اور اعتراضات کا حکومت اور الیکشن کمیشن نے مناسب انداز میں جواب دے دیا ہے،امید ہے کہ اس معاملے کو مزید متنازعہ بنانے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔یہ بات درست ہے کہ الیکشن کے بعد اس طرح کے اعتراضات دنیا کے ممالک میں سامنے آتے ہیں اور پھر کو طے بھی کر لیا جاتا ہے۔
بھارتی کسان پھرسڑکوں پر
بھارت میں کسانوں نے ایک مرتبہ پھر پورے ملک کے طول و عرض میں احتجاج شروع کر کے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیاہے۔ کسانوں کی اس نئی احتجاجی تحریک کا آغاز تین سال کے وقفے کے بعد ہوا ہے۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت فصلوں کی قیمتوں کا کم از کم تعین کرے تاکہ مارکیٹ میں انہیں سوداگروں کے استحصال سے نجات مل سکے۔کسانوں کی تنظیمیں توقع کرتی ہیں کہ احتجاج ملک کی تمام ریاستوں سے شروع ہو گا۔۔ادھر حکومت نے کسانوں کا احتجاج روکنے کےلئے مخصوص مقامات اور سرحدی علاقوں میں پابندیاں لگا دی ہیں۔ کئی مقامات پر حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں ۔ کسانوں کے احتجاج سے قبل دہلی پولیس نے سرحد پر فوجداری ضابطہ کی دفعہ144نافذ اور دارالحکومت کے داخلی راستے بند کردیے ۔2021کے احتجاج کے اعادہ سے بچنے کے لیے نئی دہلی میں داخلے کی سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جب ہزاروں کسانوں نے ملک کے دارالحکومت کی طرف جانےوالی بڑی شاہراہوں پر ڈیرے ڈالے تھے۔کسانوں کا یہ مارچ بھارت میں قومی انتخابات سے چند ماہ قبل سامنے آیا ہے، جس میں وزیر اعظم نریندر مودی کے تیسری بار جیتنے کی توقع ہے۔ ملک کے لاکھوں کسانوں کا ایک بااثر ووٹنگ بلاک ہے اور حکمران جماعتیں کاشتکاروں کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ٹیلی ویژن فوٹیج میں شمالی بھارت کی بریڈ باسکٹ ریاستوں پنجاب اور ہریانہ سے کسانوں کودہلی کی جانب ٹریکٹر چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔دہلی اور اتر پردیش کے درمیان تمام سرحدوں اور شمال مشرقی ضلع کے دائرہ اختیار والے علاقوں کے ساتھ ہی آس پاس کے علاقوں میں عوام کے جمع ہونے پر پابندی ہوگی۔ اتر پردیش سے دہلی میں مظاہرین کو لے جانے والے ٹریکٹروں، ٹرالیوں، بسوں، ٹرکوں، تجارتی گاڑیوں، ذاتی گاڑیوں، گھوڑوں وغیرہ پر داخل ہونے پر پابندی ہوگی۔ نارتھ ایسٹ ڈسٹرکٹ پولیس مظاہرین کو دہلی میں داخل ہونے سے روکنے کےلئے تمام تر کوششیں کریں گی ۔ کسی بھی شخص کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی، بشمول آتشیں اسلحہ، تلوار، ترشول، نیزہ، لاٹھی، سلاخ وغیرہ۔ شمال مشرقی ضلع پولیس ان افراد کو موقع پر ہی حراست میں لے لے گی۔بھارتی حکومت نے کئی علاقوںمیں انٹرنیٹ کی سروس بھی بند کر دی ہے۔ بھارت میں کسانوں کی تحریک کی تاریخ پرانی ہے اور گذشتہ کئی برسوں میں پنجاب، ہریانہ، بنگال، جنوبی اور مغربی انڈیا میں بہت سارے مظاہرے ہوئے ہیں۔ کسانوں کا خیال ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں وہ نئے قانون میں نہیں۔ بھارت کی بہت سی ریاستوں میں اب بھی کسان اپنی پیداوار نجی خریداروں کو فروخت کر سکتے ہیں لیکن یہ قوانین اس کو قومی سطح پر لے جائیں گے۔کسانوں کو سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ آڑھت کی منڈیاں ختم ہو جائیں گی اور ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ رہ جائے گا۔ آڑھت سے مراد لین دین کروانے والا شخص یا مڈل مین ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر انھیں نجی خریدار مناسب قیمت ادا نہیں کریں گے تو ان کے پاس اپنی پیداوار کو منڈی میں فروخت کرنے کا راستہ نہیں ہو گا اور ان کے پاس سودے بازی کرنے کے لیے کوئی موقع باقی نہیں رہے گا۔تین سال کسانوں کے ملک گیر احتجاج نے غیر معمولی طوالت اختیار کر لیا تھی اور ایک سال تک احتجاج چلتا رہا تھا۔ بعد ازاں حکومت نے کسانوں کے سامنے سرنڈر کر دیا اور ان کے مطالبات مان لیے۔ اس بار کسانوں کا مطالبہ فصلوں کی اچھی قیمت دینے کےلئے ہے۔مودی حکومت کا اس سے پہلے جواب یہ تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے اور حکومت کو اس فیصلے سے باہر کی دنیا میں مشکلات ہوں گی۔ لیکن کسانوں کا مطالبہ اب انہیں ایسے وقت پر باہر لایا ہے جب ملک میں عام انتخابات قریب آرہے ہیں۔ اگر حکومت نے کسانوں کا مطالبہ نہ مانا تو مودی سرکار کو ملک کے اندر مشکلات اور انتخابات میں نقصان ہو سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے