کالم

امریکہ میں فوج بے زاری کے رجحانات

کی آزاد علمی فضا اور غیر متعصب تحقیق و تنقید نے علم و ایجاد کے دروازے بھی کھول دیئے۔دوسری طرف امریکہ نے دنیا بھر کے باصلاحیت اور کچھ کر دکھانے کے حوصلے سے سرشار لوگوں اور نوجوانوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا اور ان کو اپنے معاشرے کا حصہ بنایا ۔ اس سب کے باوجود چونکہ امریکہ نے اپنے عالمی کردار کو اپنی فوجی طاقت کے ساتھ مشروط کر کے دفاعی صنعت کو فروغ دینے اور اپنے نت نئے ہتھیاروں کی مارکیٹنگ کے لیے دنیا میں تنازعات کے فروغ میں دلچسپی کو اپنی حکمت عملی کا محور بنایا تھا ،تو گویا ظاہر میں نظر آنے والی ہر امریکی فوجی ہزیمت کے پیچھے امریکہ کی ڈیفنس انڈسٹری کی "فتح” کا اعلان چھپا ہوتا تھا۔لاطینی ممالک کے ناک میں انگلیاں گھمانے سے لے کر ویت نام میں امریکی بہادروں کی ہوچی منہ کے نڈر اور جری کسانوں کے ہاتھوںانسانی تاریخ کی سب سے بڑی شکست نے پہلی بار امریکی نوجوانوں کو امریکی افواجکی چیرہ دستیوں کی طرف متوجہ کیا تھا ۔ جنگ کے دوران جبری لام بندی کے خلاف باکسر محمد علی کی جرات انکار اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔لیکن یہ سب آج اس لیے یاد آگیا کہ امریکی ذرایع ابلاغ نے نمایاں طور پر متوجہ اور خبردارکیا ہے کہامریکہ کی نوجوان نسل اپنی فوج کے بارے میں طرح طرحشکوک وشبہات کا شکار ہو کر انواع و اقسام کے سوالات اٹھا رہی ہے۔امریکہ کی نوجوان نسل سے شروع ہونے والی یہ فوج بے زاری ایک عالمی رجحان بننے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے یا نہیں ،یہ دیکھنا اور سمجھنا ابھی باقی ہے ، لیکن جس چیز کا واضح طور پر مشاہدہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ پرانی نسل کے بزرگوں کے برعکس امریکی نو جوانوں میں اپنی فوج کی کارکردگی اور اس پر امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسوں کے اصراف کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اگر نوجوان نسل امریکیفوج سے اسی طرحبے زار اور غیر مطمئن رہی تو مستقبل میں فوجی اخراجات کے لیے فنڈز کی منظوری میں بھی مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ایک اور خطرناک رجحان جو دیکھنے میں آرہا ہے وہ نوجوانوں کی طرف سے فوج میں جانے سے گریز اور انکار میں تیزی سے ہونے والا اضافہ ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کےلئے بھی اس میں سمجھنے اور سیکھنے کےلئے بہت کچھ ہے ، اگر فوج بیزاری کے رجحان نے ایک عالمگیر وبا کی شکل اختیار کر لی ،تو امریکہ سے متاثر اور امریکہ ہی کے زیر اثر ممالک کے اندر بڑی مضحکہ خیز صورت بن سکتی ہے۔ سوشل میڈیا کے حد درجہ اثر و نفوذ اور کشش و قبولیت نے امریکہ میں پہلی بار اسرائیلی ریاست کو بھی ایک ظلم کرنے والی دشمن اور قابل مذمت ریاست سمجھنے کے رجحان کو فروغ دیا ہے۔ بزرگ امریکی شہریوں کے برعکس آجکے امریکی نوجوان اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف مظالم پر خود کو انسانیت کے حوالے سے عالمی احتجاج کے اثرات سے زیادہ قریب پاتے ہیں ۔اور اس طرح شاید اسرائیلی ریاست کی بلا شرکت غیرے محبوبیت کا قصہ بھی اب ختم ہوا چاہتا ہے ۔ ریگن نیشنل ڈیفنس سروے میں بتایا گیا ہے کہ 2018کے بعد بزرگ شہریوں میں فوج پر اعتماد 97 سے 90فیصد تک کم ہو گیا ہے ۔ دوسری طرف 18سے 29 سال کی عمر کے افراد میں فوج پر اعتماد اور یقین کے تناسب میں واضح طور پر کمی دیکھنے میںآئی ہے ، یہ تناسب اس سے پہلے2018 میں ستاسی فی صد تھا اور اب 2023 میں یہ کم ہو کر64 فیصد رہ گیا ہے۔تجزیہ کاروں کی تشویش کا اصل باعث یہ ہے کہ نوجواننسل میں فوج پرتیزی سےکم ہوتا ہوا اعتماد دفاعی اخراجات کی حمایت کو کمزور کر دے گا۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنلنے لکھا ہے کہ امریکہ کی نوجوان نسل اپنی افواج کے بارے میں انواع و اقسامکےشکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ اخبار کے خیال مںں یہ صورت حال قومی سلامتی کے بارے تشویش کے متعدد پہلو اپنے اندر رکھتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ امریکہ ہمیشہ ہر بات میں سبقت لے جانے کی روایت رکھتا ہے ،اور یہ بھی کہ امریکیوں کے متعارف کرائے گئے فیشن اور رجحانات ایک دنیا کو متاثر کرتے ہیں،پہلی بار سوچ رہا ہوں کہ یہ فوج گریزی اور ڈیفنس بے زاری والا رجحان اور فیشن بھی دنیا میں پھیل سکے گا یا نہیں؟ ہاں پاکستانی ہونے کی حیثیت سے میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستانی نوجوانوں میں اپنی پیاری فوج سے بیزاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔سول سروس کے بعد سب سے پسندیدہ پیشہ یہی خیال کیا جاتا ہے۔ستم ظریف کا کہنا ہے کہ آج کل رشتے کرانے والی آنٹیوں کے مطلوب و محبوب لڑکے ڈاکٹر ، انجیئر کی بجائےآرمی آفیسرز ہوتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں اور انجینئرز کی طرح آرمی آفیسرز بے روزگار نہیں ہوتے۔ذہنی مشقت بھی کم کرنی پڑتی ہے ، اور ذہن کا استعمال بھی ، یوں صحت بھی اچھی رہتی ہے ۔نوکر چاکر کی سہولت بھی فراواں ، مگررشتہ آنٹیوں کی ڈیمانڈ اور پسند اپنی جگہ، پاکستان میں تو پرانی گاڑیاں فروخت کرنے میں بھی آرمی آفیسر کے حوالے کا اہم کردار رہتا ہے ۔پرانی اور کھٹارہ کاروں کی فروخت کے اشتہارات میں ایک جملہ بڑے تواتر سے پڑھنے کو ملتا ہے کہ” فوجی افسر کی چلائی ہوئی” تو ایسے ملک میں نوجوانفوج سے بے زار کیونکر ہو سکتے ہیں۔ ستم ظریف ایک اور بات بھی کرتا ہے ۔پکا سا منہ بنا کر کہتا ہے کہ ہمارے لوگ "آواگون” کے فلسفے سے اتنے بے زار نہیں ہوئے ،جس قدر پینٹاگان کی چیرہ دستیوں سے خفا ہیں ۔ وضاحت کرتے ہوئے ستم ظریف کہتا ہے کہ؛ ہمارے یہاںکے لوگ جب تک صرف آواگون کے فلسفے سے واقف تھے اور آواگون یہاں کےکچھ مذاہب کے عقاید کا حصہ بھی تھا اور ہے ،تب تک زندگی کے مختصر ہونے کا رنج یہاں کے لوگوں کو اداس اور نراش نہیں کرتا تھا۔بد نصیب لوگ اگلے جنم کی خوشحالی کے تصور سے خوش رہتے تھے ،اورمظلوم لوگ ، دنیا کے نظام انصاف سے ماورا گناہ گاروں کو جانوروں کے روپ میں تصور کرکے خوش ہو جاتے تھے۔یوں سات جنم کے چکر نے نچلے طبقات کے لوگوں کو طبقاتی جدوجہد اور مزاحمت سے غافل رکھ کر اپنی خراب زندگی کو اچھی آس امید کے طلسم ہوش ربا کے حوالے کر رکھا تھا۔لیکن جب سے ہمارے ہاں آواگون کے فلسفے کی جگہ پینٹاگون کی پیہم ہدایت کاری نے لے لی تھی،تب سے ،زندگی کا حال اور مآل دونوں سخت خسارے میں جا رہے ہیں۔ ہمارے یہاں سے جب بھی کوئی متر ، کوئی سجنپینٹاگون کا دورہ کرنے جاتا ہے اور ہلکی سی لرزاں بتیسی کو جبڑے کے باریک پٹھوں سے بھینچ کر انگریزی بولنے کا مظاہرہ کرتا ہے تو دھیان فوری طور پر اس خسارے کی طرف چلا جاتا ہے ۔ یہ پینٹاگون ہے کیاکہ جس میں دھوتی پہنے والے بھی پتلون پوش ہو کر جاتے اور فلاح کے عوض نئی ذمہ داریاں پاتے ہیں؟ یہ امریکی ریاست ورجینیا میں ایک پانچ کناروں والی نہایت درجہ مضبوط عمارت ہے۔اس عمارات میں امریکی محکمہ دفاع کے دفاتر ہیں۔وہی محکمہ دفاع جس کے حد سے بڑھتے اخراجات اور جس کی اسرائیل کےلئے غیر مشروط اطاعت و حمایت نے نوجوان امریکیوں کے دل و دماغ کو انواع و اقسام کے سوالات اور خیالات سے بھر دیا ہے۔یہ پینٹاگان پہلے اپنی افواج کے ذریعے جنگیں لڑتا تھا ، پھر تجربے اور دفاعی انڈسٹری کے بے محابہ منافع نے یہاں کے دماغوں کو سکھایا کہ جنگیں دوسروں کی فوج کے ذریعےبھی لڑی جا سکتی ہیں ،سو انہوں نے یہی کچھ کیا ،پھر اسی پینٹاگون نے سمجھ لیا کہ جنگیں اور تنازعات تو باقاعدہ افواج کی بجائے متفرق و منشتر گروہوں کے ذریعے بھی لڑی جا سکتی ہیں ۔ یہ تجربات کرنے کے بعد اب پینٹاگانرشتے کرانے والی آنٹی کی بجائے طلاق کرانے والے مولوی میں تبدیل ہو چکا ہے ۔کچھ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی کسی ملک کا اعلی عسکری عہدے دار پینٹاگون کا دورہ کرتا ہے اور جبڑوں کی گرفت میں لرزان بتیسی کو کس کر انگریزی بولتا دکھائی دیتا ہے ،تو وہیں اہل نظرتاڑ جاتے ہیں کہ کہیں پر کسی نہ کسی کی طلاق کے مشورے ہو رہے ہیں۔شاید امریکی محکمہ دفاع کی انہی چالبازیوں نے امریکہ کی نژاد نو کو اپنی مکار فوج سے دور اور بیزار کر دیا ہے۔تاہم اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں آج بھی فوج رشتہ مارکیٹ میں پہلے نمبر پر نظر آتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے