کالم

امریکی گانگریس کی قرارداد

قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں معمول کی کارروائی روک کر امریکی گانگرس کی منظور شدہ قرارداد کے خلاف مشترکہ قرارداد منظور کر لی گئی جمعة المبارک 28 جون کے اجلاس میں حکومتی رکن شائستہ پرویز ملک نے قرارداد پیش کی جسے بحث وتمحیص کے بعد منظوری کی قبائپہنائی گئی قرارداد پیش کرنے بحث کرنے اور منظور ہونے تک کے تمام مراحل میں سنی اتحاد کونسل کے اراکین شور شرابے اور احتجاج میں مصروف رہے۔شور و غوغا اس قدر زیادہ لگا کہ شائستہ صاحبہ کو مائیک لگا کر گفتگو کرنا پڑی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ امریکہ سمیت کسی بھی ملک کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں۔ وطن عزیز میں شکایات سننے اور اسکے ازالہ کے لیے عدالتیں ٹربیونلز اور فورمز موجود ہیں ۔کیا کبھی پاکستان نے کسی دوسرے ملک کے سیاسی اور حکومتی معاملات میں مداخلت کی؟امریکی قرارداد کی منظوری پر اسی روز دفتر خارجہ کے ردعمل میں امریکہ کو ”ٹھیک ٹھاک ”جواب دیا گیا۔ ترجمان فارن افیئرز ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ پاکستان انتخابات میں بے ضابظگیوں کے تمام الزام مسترد کرتا ہے، امریکی قرارداد ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی ترجمان دفتر خارجہ نے یہاں تک کہہ دیا ایسی قرارداد تعمیری ہے نہ بامقصد…!! یہ وہی قرارداد ہے جس پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ یہ اس ملک کے ایوان کی قرار داد ہے جس نے اسرائیل کو فلسطین میں نسل کشی کی اجازت دی ہے۔ 19 جون 2024 کو امریکہ کے ایوان نمائندگان میں قرارداد پیش ہوئی 368 اراکین نے رائے دی سات اراکین کا موقف تھا کہ اس طرح کی غیر ضروری قرار دادیں دوسرے ممالک کی آزادی اور خودمختاری کو زچ کرنے کے مترادف ہیں۔ 361 اراکین کی طرف داری اور حمایت سے منظور ہونے والی قرارداد میں بتایا گیا کہ 8 فر وری 2024 کے عام انتخابات میں ووٹرز کو آزادانہ ماحول دستیاب نہ تھا۔ تشدد’ من مانی’ انٹرنیٹ کی بندش اور ٹیلی کمیونیکشن تک رسائی سے محروم رکھ کر ووٹرز کو دباو میں رکھا گیا لہذا نتخابی بے ضابطگیوں کی تحقیقات ہونی چاہیے.قرارداد کیا ہے، پیش کرنے اور کرانے والوں کے مقاصد کیا؟ ہیں ہمیں اس سے سروکار نہیں ہماری غرض تو صرف یہ ہے کہ پاکستان جیسے آزاد اور خودمختار ملک کے معاملات میں کوئی ملک کیسے مداخلت کر سکتا ہے؟ چاہیے تو یہ تھا کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہاں یک زبان ہو کر جواب دیتے کہ ہمارے یہاں سیاسی اور انتخابی جھگڑے ہیں یہ ہم جانیں, ہماری جماعتیں اور ادارے جانیں …!! میاں تم کون ہوتے ہو ہمارے معاملات میں مداخلت کرنے والے اور ہمیں ڈکٹیشن دینے والے؟ لیکن ایسا نہ ہوسکا پاکستان میں سیاسی تفریق کو جس گہرے رنگ کی لائنوں سے ایک دوسرے کے خلاف کر دیا گیا ہے اس کی جھلک 28 جون کو ایوان زیریں کے سیشن میں صاف دکھائی دی۔ وہی انتشار اور نفرت سیاسی جماعتیں اور ان کے سربراہان اپنے محبان میں منتقل کررہے ہیں آج حالات یہ ہیں کہ ہم اپنے اپنے لیڈر کی محبت اور عقیدت میں کسی ادارے کی توقیر کو خاطر میں نہیں لاتے۔قارئین کو یاد ہوگا، والئی میسور سلطان، ٹیپو سلطان کے ساتھ ان کے معتبر دوستوں جن میں میر جعفر پیش پیش تھے۔ میر جعفر اور ان کے حواریوں نے ہمدردی اور احساس کی چادر اوڑھ کر ٹیپو سلطان اور اہل میسور کی پیٹھ میں جو چھرا گھونپا اس کی کسک اب تک محسوس کی جارہی ہے۔ آج کے حالات وہ نہیں مگر اس کا چھوٹا سا عکس ضرور نظر آرہا ہے۔ ارد گرد ہماری بہتری چاہنے والے موجود ہیں جو اپنے مفادات کی آبیاری میں دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کو سیاسی اور معاشی طورپر کمزور بنا کر اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں حیرت ہے کہ ان باتوں کا علم رکھنے کے باوجود ہمارے” بڑے ”خاموش ہیں ہمیں خودمختاری اور خودداری کا بھولا ہوا سبق یاد کرنا ہے ۔اس کیلئے ہمیں افکاراقبال سے رجوع کرنا ہے، یہ ہی مسائل سے نکلنے کا واحد حل ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے