کالم

انتخابات اور پی ڈی ایم2

فروری کو عام انتخابات کے نتائج منظر عام پر آ چکے ہیں، بظاہر کوءبھی نہیں جیتا، کمال ہوشیاری سے سب کو بے دست و پا کر کے رکھ دیا گیا، اتنے کم نمبرز دئیے گئے کہ کوءبھی اکیلا اس پوزیشن میں نہیں کہ اپنے بل بوتے پر حکومت بنا سکے اور یہی سب کچھ الیکشن سے پہلے سر عام کہا سنا جا رہا تھا کہ الیکشن کا ڈھول ایک طرف پورے زور و شور سے بجتا رہے گا لیکن فیصلے کہیں اور بند کمروں میں ہی ہوں گے اور پھر بالکل ویسے ہی ہوا لیکن، حیران کن بات یہ ہے کہ وہ سب کچھ نہ ہو سکا جو یہ سارے اور انکے سرپرستوں نے پی ٹی آئی کے متعلق سوچا ہوا تھا۔ ملک کی سب سے مقبول عام سیاسی پارٹی کو انہوں نے جس طرح نیست و نابود کر کے اسکے رہنماں کوتتر بتر کر رکھا تھا، کچھ جیلوں میں بند، بانی چیئرمین قید، اکثر روپوش، گویا پارٹی کا تقریبا نام و نشان تک مٹا دیا گیا لیکن خدا کی شان، رات نو دس بجے تک اس پارٹی کے حق میں موصولہ نتائج نے جب ان سب کے ہوش ٹھکانے لگانے شروع کیئے تو پھر سب کچھ اچانک ٹھپ کر دیا گیا۔ بتیاں گل، نتیجے آنے بند، نہ کوئی انٹرنیٹ نہ موبائل سروس۔ اور پھر اسیکیمو فلاج سے فائدہ اٹھا کر وہ لمبا چوڑا جھاڑو پھیرا گیا کہ خدا کی پناہ۔ رات جو پی ٹی آئی کے لوگ ہزاروں کی لیڈ سے جیت رہے تھے انہیں اگلی صبح ایک بڑے مارجن سے ہرا دیا گیا۔ فارم 45کچھ کہہ رہا ہے اور کامیابی کسی اور کے نصیب میں۔ ہارنے والے تو حیران تھے ہی، جیتنے والوں پر بھی سکتا سا طاری ہو گیا کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے، دو اور دو تو چار ہوتے ہیں لیکن یہاں کیسے ساڑھے چار؟ پی ٹی آئی کا دعوی ہے کہ انہیں ہروایا گیا وگرنہ انکی دو تہائی اکثریت یقینی تھی۔ رات دس بجے سے صبح پانچ بجے تک وہ کچھ ہوا جسکی مثال نہیں ملتی، عالمی میڈیا، یورپ امریکہ چیخ پڑا، وہ وہ لوگ ضمیر کے ہاتھوں پھٹ پڑے جو الیکشن کروا رہے تھے، جو براہ راست ذمہ دار تھے، موقع ملتے ہی انہوں نے ہنڈیا بیچ چوراہے ہی انڈیل دی۔ اسکی ایک مثال کمشنر راولپنڈی سے بڑی کیا دی جا سکتی ہے جس نے اپنا شاندار کیرئیر اور کروڑوں کی پینشن وغیرہ سب کچھ دا ﺅپر لگا کر قوم کو سچ بتا دیا۔ ادھر کمال ہے حافظ نعیم الرحمن کراچی والے جماعت اسلامی کے رہنما کی، جنہیں صوبائی کی ایک سیٹ پر کامیاب قرار دیا گیا لیکن انہوں نے کمال سچائی سے ایسی جیت پر اپنی ہار کو ترجیح دی کہ وہ کیسے جیت گئےجب فارم 45کے مطابق تو اس سیٹ پر آذاد امیدوار جیت چکے ہیں۔ حافظ نعیم تمہاری سچائی اور تمہاری عظمت کو سلام۔
فروری 2024کے عام انتخابات اس ملک کے سب سے متنازعہ انتخابات کے طور پر تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے، اور یہ قوم اس جیسے کمزور الیکشن کمیشن، اسکے عملے اور ان خفیہ ہاتھوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی جنہوں نے رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھا کر عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی اور جیتے ہوئے آزاد امیدواروں کو شکست میں تبدیل کروایا۔ اس موقع پر ان خاموش پاکستانیوں کی عظمت اور شعور کو بھی سلام جنہوں نے ریاستی ظلم و جبر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بغیر کسی خوف و خطر حق اور سچائی کا ساتھ دیا اور قیدی نمبر 804ہر اپنی محبتوں اور عقیدتوں کے اتنے پھول نچھاور کیے، اسکی جماعت کو کروڑوں کی صورت میں اتنے ووٹ ڈالے کہ انکے مخالف اپنے تمام تر وسائل کے باوجود ان سےنہ صرف عددی طور پر بلکہ اخلاقی طور پر بھی ہار گئے۔ قانون سے وابستہ وکلا صاحبان کا ایک بہت بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کو اسوقت سپورٹ اور سہارا دینا جب بانی چیئرمین کو مصیبت کے دنوں میں اسکے انتہائی قریبی رفقا کا اچانک چھوڑ جانا، مفاد پرستوں کا دھوکہ دینا اور ڈوبتے ہوئے جہاز سے چھلانگ لگانے کے وقتوں ٹوٹے پھوٹے پتوار سنبھالنے والے وہ تمام وکلا بھی سیلوٹ کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اس قومی فریضہ کو بھی اس نازک موقع پر سنبھالا دیا اور بہت بڑی تعداد میں انتخابات میں کامیابی سمیٹی انکی اس قربانی کو بھی قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔
اور اب بعد از میگا الیکشن فراڈ حکومت سازی کا یہ جو کھیل اب کھیلا جا رہا ہے جب کہ حق دار سے اسکا حق چھینا جا چکا ہے، مہروں کو بڑی چالاکی سے پھر سے بساط پر بچھانے کا عمل جاری ہے اور جمہوریت کی ان اٹکل بازیوں میں پاکستانی قوم یہ سارا تماشہ انکی ہر چال اب بھی بڑے غور سے دیکھ رہی ہے۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ایک کھیل الیکشن سے پہلے پی ڈی ایم کی شکل میں کھیلا، پھر الیکشن مہم میں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کےلئے اپنے گندے کپڑے بیچ چوراہوں میں دھوئے اور اب آجکل جو یہ دونوں جماعتیں حکومت سازی کے نام پر ایک دوسرے کے پاں پڑ رہی ہیں، ہے تو یہ سارا کھیل بندر بانٹ کا لیکن اپنے آپ کو ایسے اجلا اجلا ۔پی ڈی ایم ٹو۔ کی شکل میں یہ پھر سے پیش کر رہے ہیں جیسے سارا ملک اب اسوقت انکے ہی کندھوں پر کھڑا ہے۔ ن لیگ کے صدر شہباز شریف دوسری مرتبہ مرے جا رہے ہیں کہ کب وہ وزیر اعظم کا حلف اٹھائیں جبکہ پیپلز پارٹی انکی اس خواہش کے نیچے سے صبح شام بیساکھیوں کو ادھر ادھر کرتے کراتے بلیک میلنگ کے ہر اس پوائنٹ کو سکور کرنے میں مکمل کامیاب جا رہی ہے جو وہ اندر سے چاہ رہے ہیں، صدر ان کا ہو گا، چیئرمین سینٹ، دو دو گورنریاں!بس ہم کابینہ میں شامل نہیں ہونگے۔ کیوں بھئی، کابینہ میں شامل نہ ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے سوائے اسکے کہ انہیں یہ سب کچھ کھیل تماشہ زیادہ دیر چلتا نظر نہیں آ رہا۔ مشکل ترین مرحلہ آئی ایم ایف سے پنگا پڑنے کا اور عوام پر مہنگائی کے متوقع طوفانوں کا ہے جس سے شاطر اور چالاک پیپلز پارٹی کسی صورت اپنے ذمہ کوئی بھی الزام لینا نہیں چاہتی اور سارا ملبہ ن لیگ پر ڈالنا چاہتی ہے تاکہ شریفوں کا آئندہ انتخابات میں مکمل صفایا ہو جائے۔ یہ لوگ اقتدار کے رسیا ہیں، چن چن کر پیپلز پارٹی نے وہ وہ عہدے مانگے ہیں جو یہ کمزور حکومت قائم نہ بھی رہی تو وہ سارے کے سارے آخر تک چلتے رہیں گے۔ چلیں دیکھتے ہیں، یہ بلی اور چوہے کا کھیل کب تک چلتا ہے اور اقتدار کا یہ ۔بے ڈھنگا۔ اونٹ اب کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri