عام انتخابات سے ایک روز قبل بلوچستان لہو لہان کر دیا گیا،صوبے کے دو اہم اضلاع میں انتخابی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ان دھماکوں کے نتیجے میں مجموعی طور پر 28 افراد جاں بحق جبکہ 50 زخمی ہوگئے۔پہلا دھماکا ضلع پشین کے علاقے خانوزئی میں ہوا جس میں 16 افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ دوسرا دھماکا قلعہ سیف اللہ میں جمعیت علمائے اسلام کے دفتر کے باہر ہوا جس میں12افراد جاں بحق ہوئے،اسی طرح کراچی کے علاقے گلشن اقبال حاجی لیمو گوٹھ میں ہونے والے دھماکے میں 3 افراد جاں بحق ہوگئے۔ قلعہ سیف اللہ میں ہونے والا دھماکا جے یو آئی کے امیدوار مولانا عبدالواسع کے انتخابی دفتر کے باہر ہوا ہے، دھماکے کے وقت جمعیت کے امیدوار مولانا عبد الواسع دفتر میں موجود نہیں تھے۔ ادھر چمن میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ کی گاڑی پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی،وہ چمن سے کوئٹہ جارہے تھے۔ حافظ حمد اللہ محفوظ رہے ان کی گاڑی پر فائرنگ میزائی اڈہ کے مقام پر کی گئی۔ ضلع واشک میں نادرا آفس کے قریب دستی بم سے حملہ کیا گیا ہے۔انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد بلوچستان میں اب تک کئی امیدواروں کے گھروں اور دفاتر کے علاوہ انتخابی سرگرمیوں پر درجنوں حملے ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر حملے بلوچ آبادی والے علاقوں میں ہوئے۔تاہم خانوزئی اور قلعہ سیف اللہ کے بم دھماکے پرتشدد واقعات میں جانی نقصان کے اعتبار سے سب سے بڑے حملے ہیں۔ چند روز قبل سبی میں تحریک انصاف کی ایک انتخابی ریلی کے موقع پر دھماکہ ہوا تھا جس میں میں چار افرادجاں بحق اور پانچ زخمی ہوئے جبکہ کوئٹہ شہر میں بم دھماکے میں ایک شخص جاں ہوا تھا۔اس کے علاوہ کوئٹہ، مکران ڈویژن اور رخشاں ڈویژن کے بعض علاقوں کے علاوہ بلوچستان کی بلوچ آبادی والے علاقوں میں جو دھماکے ہوئے ان میں کئی لوگ زخمی ہوئے لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ کوئٹہ شہر، مکران ڈویژن اور رخشاں ڈویژن میں زیادہ تر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے گھروں اور دفاتر کو نشانہ بنایا گیا جبکہ بعض علاقوں میں نواز لیگ کے دفاتر بھی نشانہ بنے۔ تربت میں نواز لیگ کے قومی اسمبلی کے امیدوار میر محمد اسلم بلیدی فائرنگ سے زخمی بھی ہوئے تھے۔ مکران ڈویژن میں نیشنل پارٹی کے امیدواروں کے گھروں اور دفاٹر پر دستی بم سے حملے ہوئے جبکہ خضدار کے علاقے زہری میں جے یو آئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایک مشترکہ انتخابی دفتر کو بھی بم حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ گزشتہ چند روز کے دوران خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے متعدد حملوں کے سبب سیکیورٹی خدشات بڑھ گئے ہیں۔قبل ازیں5 فروری کو خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسمعٰیل خان کی تحصیل درابن میں تھانہ چودہوان پر دہشت گردوں نے رات گئے حملہ کردیا تھا، جس کے نتیجے میں 10 پولیس اہلکار شہید اور 6 زخمی ہوگئے تھے۔ اس سے قبل 2 فروری کو بلوچستان کے علاقے مچھ اور کولپور میں سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے 3 حملوں کو ناکام بنایا اور 3 روز تک جاری رہنے والے کلیئرنس آپریشن کے دوران 24 دہشت گرد مارے گئے جبکہ4 سکیورٹی اہلکار اور2 شہری شہید ہوئے۔10جنوری کو خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ میں انڈس ہائی وے پر لاچی ٹول پلازہ کے قریب پولیس چیک پوسٹ پر رات گئے دہشت گردوں کے حملے میں 3 پولیس اہلکاروں سمیت 4 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ 5 جنوری کو ضلع بنوں میں منڈان پولیس اسٹیشن پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا تھا، دہشت گروں اور پولیس کے مابین فائرنگ کا تبادلہ کئی گھنٹوں تک جاری رہا تاہم حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔بلوچستان کی بلوچ عسکریت پسند کالعدم تنظیمیں بھی گزشتہ تین ہفتوں سے مسلسل صوبے کے عوام کو انتخابی عمل سے دور رہنے کی دھمکیاں دیتی رہی ہیں۔ چند یوم قبل بلوچ لبریشن آرمی نامی کالعدم تنظیم نے انتخابی دفاتر پر ہونے والے کئی حملو ں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ بی ایل اے نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف انکے حملوں کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے 2018 میں بھی عام انتخابات کے موقع پر کئی حملے کیے تھے اور عوام کو انتخابات سے دور رہنے کی دھمکیاں دی گئیں تھیں۔اس وقت تک ملک بھر میں پولنگ کا عمل پرامن طریقے سے جاری ہے،نتائج کا سلسلہ رات گئے سامنے آئے گا،جب تک آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے،نیا منظر نامہ کافی حد تک سامنے آچکا ہوگا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کی تنقید مسترد
ترجمان دفتر خارجہ نے پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی تنقید مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انتخابی عمل میں کسی بھی شکایت کی صورت میں داخلی قانونی حل موجود ہیں۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں افغانستان اور ایران کے ساتھ بارڈر بند رہے گا۔دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے انتخابات پر اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے انتخابی قوانین کے مطابق آٹھ فروری کو انتخابات کیلئے سیکورٹی انتظامات کو حتمی شکل دی گئی۔ پاکستان ایک جامع جمہوری عمل کو فروغ دینے کیلئے پرعزم ہے، پاکستان قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے کیلئے پرعزم ہے۔پاکستان سخت حالات کے باوجود جمہوریت کے ساتھ مخلص ہے ۔ پاکستان جمہوری طریقے سے اسمبلی میں ووٹنگ کے ذریعے معرض وجود میں آیا۔ ہماری بنیادوں میں جمہوری اقدار ہیں۔جس طرح عدلیہ و دیگر ادارے ہیں، ایسے ہی سیاست یعنی پارلیمنٹ بھی ایک ادارہ ہے، اسے مضبوط نہ کرنے کا مطلب سیاست اور جمہوریت کو کمزور کرنا ہے۔پاکستان ایک فیڈریشن ہے اور مضبوطی پالیمانی نظام میں ہی ہے۔ جب تک ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہ دیا گیا تب تک مسائل حل نہیں ہونگے۔ ملک میں معاشی استحکام صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جمہوری استحکام ہو۔ ابھی تک جمہوریت کے ساتھ جو کچھ بھی کیا گیا اس کا نقصان ملک کو ہوا جس کا خمیازہ آج بھی عوام بھگت رہے ہیں۔جمہوریت میں جمہور کے انفرادی اور اجتماعی رویے اہم ہوتے ہیں ۔ جمہوری طرز عمل جمہور کے رویوں کی اجتماعی تصویر ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کا تحفظ، انصاف کی فراہمی، قانون کی حکمرانی، مساوات، احتساب، میڈیا کی آزادی ، سیاسی جماعتوں کی مضبوطی، جمہوری نظام میں ہی ممکن ہے۔اس وقت ملک میں مسائل کاانبارہے اوران کاواحد ایک جمہوری عمل سے ہی ممکن ہے۔
آزادفلسطینی ریاست کے حق میں سعودی عرب کادوٹوک موقف
سعودی عرب نے دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا ہے کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن نہیں،امریکہ کو بتا دیا فلسطین سے متعلق سعودی عرب اپنے موقف پر ثابت قدمی کیساتھ ڈٹا ہوا ہے۔سعودی وزارت خارجہ نے اپنے تازہ بیان میں کہ مسئلہ فلسطین پر سعودی عرب کا موقف ہمیشہ ثابت قدم رہا ہے۔بیان میں بتایا گیا کہ سعودی عرب نے امریکی انتظامیہ کو اپنے اس ٹھوس موقف سے آگاہ کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک کوئی سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے جائیں گے جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کیا جاتا ۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت روکنے، اسرائیلی فوجیوں کا انخلا اور فلسطینی عوام کو جائز حقوق ملنے کی ضرورت پر زور دیا۔ غزہ میں شہریوں، بے قصور انسانوں، صحت کے اداروں اورعبادت گاہوںکے خلاف وحشیانہ جرائم ہورہے ہیں۔ موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اس انسانی المیے کو بند کرانے کے لیے اجتماعی جدوجہد کی جائے۔ اسرائیلی بربریت سے پھیلی جنگ پورے خطے کو لپیٹ میں سکتی ہے ۔ جب تک فلسطینیوں پر جبر و استبداد ہوتا رہے گا اسرائیل غیر محفوظ رہے گا۔اس لئے ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے ۔ فلسطینی عوام کو ان کے جمہوری حق سے محروم رکھ کر نہ تو مشرقِ وسطی میں امن قائم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فلسطینی عوام کو زیادہ دیر تک ان کے اپنی ریاست کے حق سے محروم رکھنا ممکن ہو سکے گا، خوش آئند بات یہ ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے مسئلے پر عرب ممالک میں کوئی اختلاف نہیں اور وہ مشرقِ وسطی میں امن کا قیام فلسطینی ریاست کے وجود میں دیکھتے ہیں۔
اداریہ
کالم
انتخابات سے ایک روز قبل دہشت گردی کے مذموم واقعات
- by web desk
- فروری 9, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 337 Views
- 10 مہینے ago