سانحہ مریدکے اپنے پیچھے اتنے سوال چھوڑ گیاہے کہ ان کا شمار بھی ممکن نہیں نہ جانے کیوں ہرسال پاکستانیوںکو درجنوں المیے اور سانحے کیوں برداشت کرناپڑتے ہیں سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا کہ فورسز کو انتہائی اقدام اٹھاکر گولیاں چلاناپڑیں جس میں سینہ گزٹ کے مطابق سینکڑوں افراڈ لقمہ ٔ اجل بن گئیاس سانحہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ضرور ہونا چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے محفوظ رہا جا سکے ویسے سینیٹر رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا احتجاجی مظاہرین کے کچھ خاص مطالبات نہ تھے وہ اسلام آباد میںامریکی سفارتخانے ایک احتجاجی مراسلہ دینا چاہ رہے تھے جو وفاقی حکومت کو گوارا نہ تھالیکن یہ بات اتنی سادہ لگتی نہیں ہے کیونکہ جس انداز سے فورسز نے کریک ڈائون کرکے ایکشن لیا وہ کوئی اور کہانی کا پیش خیمہ لگتاہے بہرحال سانحہ مریدکے انتہائی تلخ ترش اور کرب ناک یادوں کا مرکب بن گیا اور ایسی یادوںسے ہمیشہ سینے دھواں اگلتے رہتے ہیں بی بی سی اردو کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کے امیر سعد رضوی اور اْن کے چھوٹے بھائی انس رضوی سمیت جماعت کی قیادت کے چند اراکین اِس وقت کہاں ہیں یہ بات معمہ بنی ہوئی ہے، ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران اور آئی جی پنجاب کے ترجمان کو اس ضمن میں سوالات بھیجے گئے تاہم تادم تحریر کوئی جواب موصول نہیں ہوا، ٹی ایل پی کا دعویٰ ہے کہ نہ صرف سعد رضوی اور انس رضوی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا رہا بلکہ جماعت کی مرکزی مجلس شوری کے چند ارکان، جو سٹیج پر موجود تھے، ان کے حوالے سے بھی کچھ تفصیلات دستیاب نہیں ہیں آپریشن سے قبل بنائی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سعد رضوی اور انس رضوی سٹیج پر موجود تھے، اس موقع پر سعد رضوی نے کنٹینر پر لاؤڈ سپیکر کے ذریعے پولیس فورس کو درخواست کی تھی کہ ‘شیلنگ روک دیں کیونکہ ہم کوئی غلط کام کرنے نہیں جارہے ہم تو مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے اسلام آباد جانا چاہ رہے ہیں اسی تناظرمیں وفاقی وزیرطلال چوہدری نے کہا کہ جنہوں نے جرم کیا اور جرم کرایا، ان سب کو بھگتنا پڑے گا۔ ہماری حکومت میں انہوں نے 2 مرتبہ ایسے مارچ کی کوشش کی، پہلی بار ان کے مارچ کی ٹائمنگ پاک، بھارت جنگ کی تھی، دوسری بار سیلاب اور پاک افغان جنگ کے دوران مارچ نکالا۔ جتھوں سے بلیک میلنگ اب برداشت نہیں کی جائے گی، ان کے مطالبات تھے کہ قتل اور سنگین جرائم میں گرفتار ان کے لوگ رہا کیے جائیں۔ حکومت نے ہرممکن کوشش کی کہ خون خرابہ نہ ہو، افغانستان نے پاکستان پر حملہ کیا لیکن انہوں نے دھرنا ختم نہیں کیا۔ طلال چوہدری نے یہ بھی کہا کہ جب تک قومی قیادت مل کر کام نہیں کرے گی ایسے نفرت انگیز واقعات کو روکنا ممکن نہ ہوگا، ریاست کے نرم رویے کی وجہ سے یہ جتھے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ایک اور اطلاع کے مطابق ۔لاہور میں پولیس نے ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی کے گھر پر چھاپے میں برآمدگی کی تفصیل جاری کر دی چھاپے میں 11 کروڑ 44 لاکھ کی پاکستانی کرنسی ، سونا اور 70 گھڑیاں برآمد ہوئیں مطلب یہ سب ان کے ذاتی فائدے کیلئے تھا ان کا مطالبہ تھا کہ جو کیش اور سوناپکڑا کیا گیا یہ واپس کیا جائے پولیس نے بتایا ہے کہ ٹی ایل پی سربراہ کے گھر سے غیر ملکی کرنسی میں 50 ہزار کی بھارتی کرنسی جبکہ برطانیہ، کینیڈا، سعودی عرب، یو اے ای کی کرنسی بھی برآمد ہوئی ہے۔ پنجاب پولیس نے یہ بھی بتایا ہے کہ سعد رضوی کے گھر سے برآمد غیر ملکی کرنسی کی مالیت 25 لاکھ روپے سے زیادہ ہے، جبکہ 6 کروڑ 34 لاکھ سے زائد مالیت کا سونا بھی بر آمد ہوا ہے جس پر مذہبی جماعت کی قیادت کیخلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں یہ بھی کہا جارہاہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے نے سعد رضوی اور انس رضوی کو ٹریس کر لیا جبکہ DGISPR نے انتباہ کیا ہے کہ ملک بھر میں سوشل میڈیا پر ریاست اور افواج کیخلاف پھیلائے جانے والے جھوٹ، نفرت اور پروپیگنڈے کے خلاف مؤثر کارروائیاں شروع کر دی گئیں ہیں۔ ریاست آزادیٔ اظہار کو تسلیم کرتی ہے، مگر اس نام پر قومی سلامتی اور عوامی امن کو نقصان پہنچانے کی کبھی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جو لوگ دشمنی پھیلائیں گے ان کے خلاف قانون کے مطابق سخت اقدام ہوگا۔ عوام سے گزارش ہے کہ جھوٹے بیانیوں کی نشاندہی کریں اور ملک کی سلامتی میں تعاون کریں۔ وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ سینیٹر طلال چوہدری نے کہا ہے کہ جتھوں سے بلیک میلنگ اب برداشت نہیں کی جائے گی۔فیک نیوز نیٹ ورکس بے نقاب ہوا ہے، جس کے مرکزی کرداروں کی فہرست تیار کرلی گئی ہے۔ جعلی خبریں چلانے کے عمل میں ملوث افراد کے خلاف نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے تحت مقدمات درج ہوں گے۔ ڈیپ فیک لیب ایکٹو ہوگئی، جہاں جعلی ویڈیوز اور آڈیوز کی فارنزک جانچ پڑتال جاری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ عوام محتاط رہیں، غیر مصدقہ ویڈیوز یا کلپس شیئر کرنے پر کارروائی ہو سکتی ہے، ریاستی اداروں کیخلاف نفرت انگیز جھوٹ پر زیرو ٹالیرنس پالیسی نافذ ہے۔بہرحال سانحہ مرید کے ہو یا سانحہ ماڈل ٹائون یاپھر26نومبر کا کمانڈو ایکشن ۔۔ہر بار انسانیت ہارگئی ہر بار چلتے پھرتے، نعرے لگاتے انسان راکھ کا دھیڑ بنتے چلے گئے ایسے واقعات حکمرانوں کیلئے کوئی اعزاز کی بات نہیں ان کے دامن پر ایک سیاہ داغ ہے اس وقت سوشل میڈیا پرجو ویڈیو وائرل وہ انتہائی دلخراش ہیں کئی مقامات پر آگ اور دھواں اٹھتا دکھائی دیتاہے گاڑیوں اور انسانی جسموں کی راکھ سڑکوں پر حد ِ نظر پھیلی ہوئی ہے دل کانپ کانپ جاتاہے اپنے حکمرانوں سے ایک سوال ہے یہ مرید کے ہے یا جلتے ہوئے غزہ کے گلیاں اور بازار ۔۔ یاا للہ رحم فرما پاکستان تو پہلے ہی بڑے نازک حالات سے گذررہاہے حکمرانوں سے ایک ہی التجاہے کہ آج مایوس، ناراض اور اداس ہم وطنوںکو منانے کی ضرورت ہے اس سے پہلے مٹھی سے ریت سرک جائے اصلاح ِ احوال کے لئے کچھ نہ کچھ کرناہوگا جوبڑے ہیں انہیں بڑا دل کرناہوگا یہ کسی کی انا کا مسئلہ نہیں پاکستان کی بقاء کی بات ہے۔ اس سے پہلے لہوٹپکے اور آنکھوںمیں جم جائے کیونکہ فکر، تشویش اور اندیشے چھوٹی بات ہے اب تو جان کے لالے پڑنے والی بات ہے پاکستان کو چاروں اطراف سے خطرات لاحق ہیں تو اپنے ہموطنو کی دلجوئی واجب ہے کیونکہ کوئی بھی اپنوں سے لڑ کر نہیں جیت سکتا ہر ممکن معاملات کو افہام وتفہیم سے حل کرنا ہی دانشمندی ہوتی ہے احتجاجی مظاہرین اور سیکورٹی فورسز دونوں ہی پاکستانی ہیں دونوں انسان ہیں لگتاہے درندگی جیت گئی انا کا بول بولا ہوگیا لیکن انسانیت ہار گئی۔

