کالم

انسانی اور اخلاقی قدروں کی اہمیت”

گزشتہ سے پیوستہ
رمضان المبارک یوں تو نیکیوں، عبادات اور بخشش کا زریعہ ہے لیکن حرامخوروں اور منافع خوروں کے لئے جہنم میں اپنا ٹھکانہ سو فیصد پکا کرنے کا بھی سبب ہے نیکیاں اور ثواب ستر فیصد زیادہ جبکہ منافع اور حرامخوری دو سو فیصد ہے غریبوں کے نام پر چندے اکٹھے کرنا اور خود کھا جانا بھی عام ہے رمضان سے پہلے جو چیز سو روپے کی ملتی تھی رمضان میں دو سو کی ہے ہر کسی کا اپنا ریٹ ہے لوکل گورنمنٹ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا کوئی میکنزم نہیں ہے جن ممالک میں لوکل گورنمنٹ کا نظام مضبوط ہے وہاں یہ کام مقامی حکومتیں کرتی ہیں ایشائے خوردونوش میں ملاوٹ عام سی بات ہے نہ سواد نہ ذائقہ نہ دودھ نہ چائے نہ دوائی خالص، پولٹری فارم کی مرغیوں کے گوشت کا ذائقہ ایسا جیسے بھوسہ ہے ایسی خوراکیں کھانے والوں کی صحت کا اللہ ہی مالک ہے ۔ کوئی ایسی دوکان یا دفتر نہیں جہاں قطار بنانے کا رواج ہو قطار میں لگنا ایسے ہی سمجھا جاتا ہے جیسے یہ توہین آمیز کام ہو کسی بوڑھے لاچار کے لئے راستہ چھوڑنا درکنار ان کو تنگ کرنا اور انکا راستہ بند کرنا بھی عام ہے سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک بغیر کسی قانون قاعدے کے چل رہی ہے ہٹو بچو آگے بڑھو قدم قدم پر حادثات ہو رہے ہیں چھوٹے چھوٹے بچے گاڑیاں چلا رہے ہیں صبر اور شکر نام کی کوئی چیز یہاں نہیں ہے ہر کوئی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے جھوٹ،فراڈ،رشوت ستانی اور سفارش کوئی انہونی بات نہیں
رہی یہ ہمارے کلچر کا اب حصہ ہے
مولانا طارق جمیل صاحب اپنے ایک خطاب میں فرما رہے تھے کہ”رمضان المبارک میں سب کی بخشش ہوجائے گی لیکن چار قسم کے افراد کی بخشش نہیں ہو گی پہلا مستقل شراب پینے والے کی بخشش نہیں ہو گی، دوسرا ماں باپ کے نافرمان کی بخشش نہیں ہوگی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ماں باپ کے نافرمان کی سزا تو دنیا سے ہی شروع ہوجاتی ہے اور آخرت تک جاتی ہے یعنی نافرمان اولاد کی سزا دنیا اور اخرت دونوں جہانوں میں ملتی ہے رشتہ داروں سے لڑنے والا کبھی بھائی سے لڑتا ہے کبھی بہن کبھی خالہ پھوپھی ماموں،چچا ، چچی سے کبھی کس سے بدزبانی اور بدکلامی کرنے والا اور قریبی رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا، اور چوتھا وہ شخص جو دوسروں کے بارے میں دل میں کینہ رکھتا ہے دوسروں کی ٹانگیں کھینچتا ہے انہیں نقصان اور نیچا دکھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے "اج دیکھیں ہم مسلمان کن برائیوں میں مبتلا ہیں معاشروں میں انسانی قدروں کا تعین اخلاقیات کی بنیاد پر ہوتا ہے جس کے لئے ہمیں ہر صورت سعی کرنی چاہئے میری یہ تحریر بھی ایک یاد دہانی کےلئے ہے پاکستان جیسے ملک میں اذانوں نمازوں اور عبادات کا اہتمام تو الحمدللہ بھرپور طریقے سے ہوتا ہے لیکن کیا ہماری اخلاقی قدریں اسلام کے رہنما اصولوں کے مطابق ہیں جبکہ قران و حدیت اور سیرت مبارکہ میں اخلاقیات یا اخلاقی گھراوٹ کی کچھ اسطرح منظر کشی کی گئی ہےترجمہ :”مومنوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں جو اخلاق میں سب سے اچھے ہوں“ ۔ اچھے اخلاق میں بہت سی باتیں شامل ہیں جیسے گفتگو میں نرمی، صبر، مسکراہٹ، رحم دل مزاج، خیرخواہی، محبت، تحفہ، شرم وحیا، امانت، ذمہ داری، ادب، باہمی تعلقات، والدین کے ساتھ حسن سلوک، بچوں کے ساتھ شفقت، صل رحمی، ہمسائے کے حقوق، یتیم کے ساتھ حسن سلوک ۔ یہ ساری باتیں ہمارے اخلاق کو اچھا بناتی ہیں ۔کچھ باتیں جو ہمارے اخلاق کو برا بناتی ہیں ان میں جھگڑا، ظلم، جھوٹ، غصہ، تکبر، حسد، بخل، حِرص اود بد مزاجی شامل ہیں۔ اس کے مطابق اگر کوئی انسان عمل کرے گا تو اس کے اخلاق کو جانا جائے گا کہ وہ اچھے یا برے اخلاق کا مالک ہے ۔اب ہمیں آپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارے اخلاقیات کیسے ہیں۔ہمیں سب سے پہلے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے سیکھنا چاہیے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ۔ ترجمہ "درحقیقت تم لوگوں کےلئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک بہترین نمونے ہے” آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی ساری زندگی دوسروں کو عمدہ اخلاق کی تعلیم دینے کا عملی نمونہ ہیں ہم محرم الحرام ، 12 ریبح الاول مسجد نبویؓ خانقاہوں اور درگاہوں میں یا نعروں میں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن عملی طور پر انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی زندگیوں کو حضورﷺ کی زندگی کے مطابق گزارنے کی سعی کرنی چاہیئے چونکہ انسانوں کے مجموعی کردار سے ہی کسی ملک اور معاشرے کی عکاسی ہوتی ہے پاکستان ہمارا ملک ہے جو ہماری دنیا میں پہچان اور شناخت ہے آئیے اس ملک کو اپنے اعلی اخلاق ، عدل وانصاف اور دوسروں کا حق انہیں لوٹا کر اپنے ملک کی ساکھ کو بہتر بنائیں 23 مارچ 1940 کو برصغیر کے مسلمانوں نے پورے برصغیر سے لاہور جمع ہو کر جس پاکستان کی بنیاد رکھی تھی وہ اسلامی فلاحی اور جمہوری پاکستان تھا ملک تو قائم ہوگیا لیکن اس کا حقیقی طور پر اسلامی تشخص بحال کرنا اور ااخلاقی قدروں کا حصول ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے