کالم

انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتا بھارت اور عالمی چشم پوشی

ایک جانب بھارت انسانی حقوق کی مسلسل دھجیاں اڑا رہا ہے اور اس ضمن میں عالمی خاموشی افسوس ناک ہے تو دوسری طرف یاسین ملک (جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ) کے سربراہ، کو بھارتی حکومت کی جانب سے بار بار نظر بند کیا گیا ہے اور ان کی نظر بندی نے نہ صرف کشمیر میں بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے حامیوں اور تنظیموں کے درمیان شدید تشویش بھی پیدا کی ہے۔
یاد رہے کہ یاسین ملک بھارتی غیر قانونی قبضے والے کشمیر کے ایک ممتاز رہنما ہیں جو کئی دہائیوں سے کشمیر کی آزادی اور خود مختاری کی تحریک میں سرگرم ہیں اور انہوں نے اور حریت کے دوسرے رہنماوں نے پرامن طریقوں سے ہمیشہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کی حمایت بھی شامل ہے۔ یہ امر تشویش کا باعث ہے کہ مودی سرکار کی جانب سے یاسین ملک کی نظر بندی کو مختلف وجوہات کی بنا پر جواز پیش کیا گیا ہے، جن میں دہشت گردی کے الزامات، ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونا شامل ہیں۔ تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کی نظر بندی بنیادی طور پر سیاسی انتقام کا نتیجہ ہے اور اس کا مقصد کشمیر میں آزادی کی تحریک کو کچلنا ہے۔
مبصرین کے مطابق یاسین ملک کی نظر بندی نے کئی انسانی حقوق کی پامالیوں کو جنم دیا ہے، جن میں یاسین ملک کو بغیر کسی مناسب عدالتی عمل کے طویل عرصے تک نظر بند رکھا گیا ہے، جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان کی نظر بندی نے آزادی اظہار رائے کے حق کو محدود کیا ہے، کیونکہ وہ ایک ممتاز رہنما ہیں جو کشمیر کے لوگوں کی آواز ہیں۔حریت رہنماوں کی جانب سے نظر بندی کے دوران قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں، جو انسانی وقار کے منافی ہیں۔کشمیری حریت رہنماﺅں کی نظر بندی اور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر عالمی سطح پر مختلف تنظیموں اور ممالک نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔اسی تناظر میں اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اور ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی تنظیموں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری کرے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرے۔ مسرت عالم بٹ ، یاسین ملک اور دیگر کشمیری حریت رہنماوں کی نظر بندی اور انسانی حقوق کی پامالیوں نے کشمیر کے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
سنجیدہ حلقوں کے مطابق یہ ضروری ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر کے مسئلے کو پرامن اور جمہوری طریقوں سے حل کرنے کے لیے اقدامات کرے کیوں کہ انسانی حقوق کی پاسداری اور سیاسی قیدیوں کی رہائی سے ہی خطے میں امن اور استحکام ممکن ہے۔ عالمی اور مقامی انسانی حقوق کی تنظیموں کو یاسین ملک کی نظر بندی اور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر نظر رکھنی چاہیے اور ان کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔عالمی برادری کو بھارتی حکومت پر دبا¶ ڈالنا چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری کرے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرے۔ اسی ضمن میں بھارت کو کشمیر کے مسئلے پر بامقصد مذاکرات شروع کرنے چاہئیں تاکہ خطے میں دیرپا امن قائم ہو سکے۔مقبوضہ کشمیر کاجائزہ لیں تو تازہ ترین رپورٹس کے مطابق محض اپریل 2024 کے مہینے میں 8نہتے کشمیریوں کو شہید کیا گیا جبکہ 90 افراد زخمیوں کی فہرست میں شامل ہیں ۔ 205کشمیریوں کو جرمِ بے گناہی میں گرفتار کیا گیا ۔ 11 دکانوں اور مکانوں کو مسمار کیا گیا جبکہ مزید 3 خواتین کو بیوگی کے لق و دق صحرا میں دھکیل دیا گیا ۔
دوسری طرف یہ بات بھی غالباً انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہونی چاہیے کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق محض اس مہینے کے دوران بے شمار کشمیری ایسے لا پتہ افراد کی فہرست میں شامل ہیں جو بظاہر ہندوستان کی ریاستی دہشتگردی کے نتیجے میں یقینا شہید کیے جا چکے ہیں مگر چونکہ ایسے تمام افراد کی شہادت کی تصدیق نہیں ہو سکی لہذا ان کے لواحقین عجیب سی صورتحال میں مبتلا ہیں کیونکہ ایسی شادی شدہ خواتین کو نہ تو بیواﺅں میں شمار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسرے زمرے میں ۔
معاشرتی اور سماجی حوالے سے یہ اتنا بڑا انسانی المیہ ہے جس کا شائد تصور بھی کسی ذی نفس کے سواہانِ روح ہو مگر اسے عالمی ضمیر کی بے حسی کہا جائے یا انسان دوست ہونے کے دعویدار حلقوں کا تجاہلِ عارفانہ کہ اس معاملے کی سنگینی کا خاطر خواہ انداز سے اظہار تک نہیں کیا جا رہا ۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق آر ایس ایس اور مودی کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جموں کشمیر کے غیور عوام اپنے ایک لاکھ سے زائد فرزندوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور یہ طے ہے کہ جلد یا بدیر قابض بھارتیوں کو کشمیر سے رخصت ہونا ہو گا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ کفر کی حکومت تو شاید کچھ عرصہ نکال جائے مگر ”ظلم“ کے کالے اندھیرے زیادہ دیر تک صبح کے اجالوں کو طلوع ہونے سے نہیں روک سکتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے