محی الدین اورنگ زیب عا لمگیر بہادر مسلمان مغل حکمران 1618ءمیں پیدا ہوا اور1707ءمیں وفات پائی۔ اُن کی وصیت کے مطابق خلد آباد اورنگ آباد دکن میں دفنایاگیا۔ اورنگ زیب مغلیہ سلطنت کا چھٹا بادشاہ تھا۔ اس نے1650ءتا1707ءتک پورے پچاس سال برصغیر پر حکومت کی۔ یہ مغلیہ سلطنت کا آخری عظیم الشان بادشاہ تھا۔ اس کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت، زوال کا شکار ہونا شروع ہوئی۔ اورنگ زیب نے فتاویٰ عالمگیر مرتب کیا جو ایک عظیم شاہ کار ہے۔ یہ برصغیر میں مکمل اسلامی شریعت اور اسلامی معیشت قائم کرنے کے کوشش کرنے والے چند باشاہوں میں شامل ہو تا ہے۔ اورنگ زیب کا تعلق امیر تیموری خاندان سے تھا۔ اپنے والد شاہ جہاں کے تحت انتظامی اور فوجی عہدوں پر فائز رہا۔ ایک قابل فوجی کمانڈر تھا۔ اورنگ زیب گجرات کا حکمران رہا۔ اورنگ زیب نے 1645ءتا 1647ءتک ملتان اور سندھ کے صوبوں کا مشترکہ طور پر انتظام سنبھالے رکھا۔ ہمسایہ صفویوں کے خلاف مہمات جاری رکھیں۔ شاہ جہاں نے 1658ءمیں اپنے بڑے بیٹے دارا شکوہ،جو ہندو نواز اور سیکولر تھا کو اپنا جانشین نامزد کیا۔ اس کو اورنگ زیب نے رد کر دیا۔ خود کو شہنشاہ قرار دے دیا۔ اس کے بعد 1658ءمیں دارا شکوہ کو شکست سے دو چار کیا۔ اس پدائش میں اپنے والد شاہ جہاں کو آگرہ کے قلعے میں بند کر دیا۔ دارا شکوہ جو ہندوکلچر کا رسیا اور اور سیکولر خیالات والا تھا۔ اورنگ زیب کے دور میں مغلوں نے معاشی ترقی میں چنگ چین کا بھی پیچھے چھوڑ دیا اور دنیا کی سب سے بڑی معیشت کا اعزاز حاصل کیا۔ اورنگ زیب کے دور میں ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا ۔ دنیا کی کل جی ڈی پی کا ایک چوتھائی حصہ یعنی پچیس فیصد پیدا کرتا تھا۔ اس دوران انگلستان کا حصہ صرف دو فیصد تھا۔ انگریزوں نے ہندوستان کو لوٹا اور ان ہی کے دور میں بنگال ،جو ایک زری علاقہ تھا قحط میں مبتلا ہوا۔ اورنگ زیب کے اُستادوں میں محمد، میر عاشم اور ملا صالح شامل ہیں۔ اورنگ زیب نے جوانی میں قرآن حفظ کیا۔ اورنگ زیب نے جنگ، فوجی حکمت عملی اور انتظامیہ میں اعلی تعلیم حاصل کی تھی۔ اسلامی علوم میں بھی ماہر تھے۔ اس نے ہنددوں اور مسلمانوں میں فضول رسمیں ختم کرنے کی کوشش کی۔ راقم کو 1987ءمیں بھارت جانے اتفاق ہوا۔ دہلی کے لال قلعہ میں سائٹ ایڈ ساﺅنڈ کھلی میدان میں پروگرام ہوتاہے۔جس میں شرکت کا موقع ملا۔ اس میں بھارتی مسلم تاریخ کو مسخ کرتے ہیں۔اس پروگرام میں اورنگ زیب کا غلط تعارف کراتے ہیں۔ اورنگ زیب نے فحاشی کاا نسداد کیا۔ خوبصورت مقبروں کی تعمیر کی۔ گانے بجانے،قوالی، شاعری ،نجومی، شراب نوشی، اور افیون کا استعمال ختم کیا۔ مشرک زرتشی تہوار نوروز پر پابندی لگائی۔ بادشاہوں کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اُٹھانا موقوف کیا۔ سکوں پر قرآنی آیات لکھنے بند کیا کہ اس سے بے حرمتی ہوتی ہے۔ اورنگ زیب بڑا متقی ، پرہیز گار، مدبر اور زاعلی درجہ کا منتظم بادشاہ تھا۔ خزانے سے ذاتی استعمال کےلئے ایک پائی نہیں لیتا تھا۔قرآن مجید لکھ کر اور ٹوپیاں سی کر گزارہ کرتا تھا۔ بعض علما نے اورنگ زیب کو اپنے وقت کا مجدد قرار دیا ہے۔ مخالفوں نے اورنگ زیب پر ناروا الزامات لگائے۔ اورنگزیب کے دور میں نوکر شاہی میں ہنددوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ان کو اسلام قبول کرنے کی ترغیب بھی دلاتا تھا۔ اس کے دور میں ہنددوستان دنیا کی سب سے بڑی مینو فیکچرنگ طاقت اور منڈی تھی۔ اورنگزیب سے پہلے سارے مغل حکمران دین بیزار اور سیکولر تھا۔ اکبر نے دین اکبری رائج کرنے کی کوشش بھی تھی ۔مگراورنگ زیب نے اپنے دور میں اسلام کوغالب کرنے کی کوشش کی ۔ اسلام قبول کرنےوالوں کی حوصلہ افزائی کی اورنگزیب کے دور میں کئی نئے مندر تعمیر کئے گئے۔ جن مندروں سے اورنگ زیب کیخلاف بغاوتیں ہوتیں تھیں ان کو گرانے کا بھی حکم صادر کیا تھا۔ کئی نئی مسجد تعمیر ہوئیں۔ سترویں صدی میں مغلوں میں توپ خانے کا اضافہ ہوا۔ مغل توپوں میںظفر بخش توپ زیادہ مشہور ہوئی۔ ابراہیم روضہ بھی ایک مشہور توپ تھی، یہ ملٹی بیرل توپ تھی۔ مغل کمانڈر داﺅد خان نے سیلون سے پچاس جنگی ہاتھی، دس ہزار پانچ سو سکوں کے عوض خریدے ۔ اورنگزیب کے دور میں لاہور کی شاہی مسجد تعمیر کی گئی۔ اہلیہ رابعہ کا بی بی مقبرہ تعمیر کرایا۔ سرینگر میں ایک بڑی مسجد تعمیر کرائی۔ دہلی کے لال قلعہ میں سنگ مرمر کی مسجد تعمیر کرائی۔ اورنگزیب نے قطب الدین بختیار کاکی، بزرگوں کی درگاہوں کی سرپرستی کی۔ صوفی بزرگ سید عبدارحیم شاہ بخاری کا مقبرہ تعمیر کرایا۔ اور نگزیب اسلامی خطاطی کے کاموں کی سرپرستی کرتا تھا۔ خود بھی ایک بہترین خطاط تھا۔ جس کا ثبوت اس کے بنائے ہوئے قرآنی نسخوں سے ہوتا ہے۔ اورنگ زیب نے مکہ میں شریف خاندان کے پاس سفارتی مشن کو تحائف دے کر بھیجا۔ مگر شریف مکہ نے اسے مستحق میں تقسیم کرنے کے بجائے اپنے پاس ہی رکھا۔اورنگ زیب نے اُزبک مسلمانوں، صفوی خاندان، فرانسیسیوں سے اچھے تعلقات قائم کیے۔مالدیپ، سلطنت عثمانیہ، ایتھوپیا، تبتیوںاور روس سے بھی سفارتی تعلوقات قائم کیے۔ اورنگزیب نے ملک کے سو صوبوں سے ٹیکس آمدنی حاصل کی۔ملک میں مختلف بغاوتوں کی سرکوبی کی۔ اس میں مراٹھے، راجپوت، پشتون، سکھ، جاٹ اور بنگال شامل تھے۔ نویں گرو تیغ بہادر نے بغاوت کی اسے گرفتار کر پھانسی پر چڑھایا۔ کابل کے جنگ جو شاعر ،خوشحال خان خٹک کی شورش ختم کی۔1689 ءمیں گولکھنڈا کی فتح سے مغل فتوحات کا چار ملین مربعہ کلومیٹر تک بڑھا دیا۔ اورنگ زیب ایک دیندار عدل پسند مسلمان مغل حکمران تھا۔ لڑائی میں بھی نماز تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھتا تھا۔ مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ میرے مرنے پر فضول اخراجات نہ کیے جائیں۔ اورنگ زیب نے احمد نگر کے قریب بھنگر میں اپنے فوجی کیمپ میں وفات پائی۔ وفات کے وقت مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیرکے پاس صرف اٹھاسی روپے تھے۔ جو اس کی ہدایت کے مطابق خیرات کر دیے گئے۔ خلد آباد مہارشٹر میں اس کی معمولی قبر، اس کے اسلامی اقدار سے محبت کا اظہار کرتی ہے۔ یہ صوفی بزرگ برہان الدین کے مزار کے صحن واقع ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے اورنگ زیب کی قبر پر حاجری دے کر اپنے فارسی نظم” شیر اور شہنشاہ عالمگیر“ میں اظہار عقیدت کیا۔ فرماتے ہیں۔ شہنشاہ کا رتبہ اتنا بلند ہے کہ آسمان اس کے دروازے کی دیلیز ہے۔ اس نے رسول کی شریعت کا احترام کیا۔ کفر اور اسلام کے مقابلہ میں شہنشاہ عالمگیر اسلام کی آخری ترکش تھا۔ اکبر ، جہانگیر ، شاہجہان، دارا شکوہ کی بے دینی کا مقابلہ کیا۔ اللہ نے عا لمگیر کو چن لیا جو درویش صفت تھا۔ ہندوستان میں از سرے نو دین کو زندہ کیا۔ عالمگیر توحید کا پروانہ تھا۔ بت خانے میں ابرہیم کی حیثیت رکھتا تھا۔ جنگل میں صبح کی نماز پڑھ رہا تھاکہ شیر نے حملہ کیا۔ شیر کو اپنی خنجر سے ہلاک کیا۔ حقیقت میں عاری لوگوں نے عالمگیر کیخلاف من گھڑت داستانیں گھڑیں۔ ان کو عالمگیر کی دور اندیشی کا اندازہ نہ تھا۔یہ تھا علامہ اقبالؒ کا اظہار عقیدت، دین دار اورنگ زیب عالمگیر مغل بادشاہ کی شان میں۔اللہ اس کی دین کی خدمت کو قبول فرمائے۔