کالم

اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل اور حقوق

پاکستان کو معاشی عدم استحکام سے نکالنے کےلئے سمندر پار پاکستانیوں کا کردار بہت اہم ہے اور وہ طویل عرصے سے یہ کردار نبھاتے آ رہے ہیں اور تمام تر مشکلات کے باوجود وطن سے دور رہ کر بھی پاکستان کا پرچم سر بلند کیے ہوئے ہیں۔ اوورسیزکنونشن نہ صرف حکومتی پالیسیوں پر مثبت اثر ڈالے گا بلکہ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ایک امید کا پیغام بھی ہو گا ۔ترسیلات زر پاکستان کی معیشت کےلئے نہایت اہمیت رکھتے ہیں اور یہ غیر ملکی زر مبادلہ کا ایک مستحکم ذریعہ ہے سمندر پار پاکستانی اپنے وطن میں لاکھوں خاندانوں کی مالی معاونت اور کفالت کرتے ہیں جبکہ انفرادی طور پر سمندر پار پاکستانی اپنے وطن میں سب سے بڑے سرمایہ کار بھی ہیں جو ملکی معشیت کو رواں رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں مگر آج تک انہیں یکجا کر کے ملکی و قومی مفاد میں استعمال کرنے کی فکر پیدا نہیں کی جا سکی دنیا بھر میں سمندر پار پاکستانی اپنی سیاسی موجودگی بھی منوا چکے ہیں اور ہزاروں میل دور ہونے کے باوجود اپنے وطن سے غیر مشروط محبت کرتے ہیں دنیا بھر میں پاکستانی نژاد با اثر اور اعلی سماجی مقام کے حامل ہیں مگر اس قوت کو کبھی بھی قومی نقطہ نظر سے نہیں دیکھا گیا توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ کنونشن بیرون ملک رہنے والوں کو ملکی مفاد کےلئے بروئے کار لانے کےلئے متحرک کر سکتا ہے ۔ موجودہ حکومت کو پہلی مرتبہ اوورسیز کنونشن میں مثبت عوامی رد عمل ملا ہے اور اس تاثر کا بھی کسی حد تک خاتمہ ہو گیا ہے کہ سمندر پار پاکستانی کسی ایک سیاسی جماعت کے حامی ہیں مارچ 2025میں سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے 4.1ارب ڈالر سے زائد کی ریکارڈ ترسیلات زر بھجوانے سے ثابت ہو گیا ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کی محبت صرف پاکستانیت ہے مرکزی بینک کے مطابق ترسیلات زر میں سالانہ بنیاد پر 37.3فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔پاکستان اسوقت مالی مشکلات کا شکار ہے اور غیر ۔ملکی زر مبادلہ کے ذخائر پر دباو¿ کی وجہ سے ترسیلات زر پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے۔حکومت اگلے دس سالوں میں 30 ارب ڈالر کی ترسیلات زر کو 60 ارب ڈالر کی سطح پر لے جانا چاہتی ہے اور اس کے لیے منصوبہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے تاہم ترسیلات زر بڑھانے کے لیے کیے گئے آ کثر اعلانات پر عمل درامد نہیں ہوتا اب بھی اگر حکومت کی طرف سے اعلان کردہ مراعات پر فوری طور پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو کنونشن کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے ضروری ہے ترسیلات زر بڑھانے میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کےلئے موثر حکمت عملی تشکیل دی جائے قواعد و ضوابط کی نگرانی ضروری جبکہ عالمی معاشی حالات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا خلیجی ممالک کی معیشتوں میں کسی بھی قسم کی گراوٹ پاکستان کے تارکین وطن کی ترسیلات بھیجنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہے اس حوالے سے مستقبل کے امکانات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا جبکہ بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کو حکومت کی اعلان کردہ مراعاتی سکیموں پر عمل درامد کو یقینی بنانا ہوگا سٹیٹ بینک کو فنڈز کے غلط استعمال کو روکنے کےلئے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس امر کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ وزیراعظم نے جن اقدامات اور سہولتوں کا اعلان کیا ہے وہ صرف اعلان کی حد تک نہ رہیں ۔اسلام آباد میں اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے حل کےلئے خصوصی عدالتوں کے قیام اور بیرون ملک مشنز سے ویڈیو لنک کے ذریعے شواہد کی ریکارڈنگ اور مقدمات کی ای فائلنگ سے شکایات میں کمی آئےگی ۔ اوورسیز پاکستانیوں کو بینک میں بطور فائلر کرنے سے بھی سمندر پار پاکستانیوں کو بہتر سہولت میسر ہوگی۔حکومت کی جانب سے دوبارہ گرین چینل شروع کرنے سے اوورسیز پاکستانیوں کی ایئرپورٹ پر شکایات میں کمی آئیگی جبکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ایمبیسڈر آف ایٹ لارج بنا کر انہیں نیلا پاسپورٹ دینے کا فیصلہ بھی احسن اقدام ہے ۔ کنونشن سے وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اوورسیز پاکستانیوں کو وطن کا سفیر اور سروں کا تاج قرار دیتے ہوئے ملکی معاشی استحکام میں ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا وزیراعظم نے اوورسیز پاکستانیوں کےلئے پیکج کا اعلان کیا اور ملکی معیشت کی بہتری کےلئے ان کی کوششوں کو سراہا اور انہیں سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کرتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کی پیشکش بھی کی آرمی چیف نے کہا کہ جو لوگ برین ڈرین کا بیانیہ بناتے ہیں وہ سن لیں کہ یہ برین ڈرین نہیں بلکہ برین گین ہے اور بیرون ملک مقیم پاکستانی اس کی عمدہ مثال ہیں انہوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کے کردارکی تعریف کی ۔آرمی چیف نے اپنی تقریر میں دہشتگردوں اور ملک کے اندر اور باہر کے دشمنوں کو پیغام دیا کہ افواج پاکستان کی موجودگی میں اتنا فتنہ الخوارج اپنے عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔حکومت کو مختلف ممالک میں گرفتار 29000پاکستانیوں کی رھائی کےلئے خاطر خواہ انتظامات کرنے چاہیے تاکہ وہ جلد اپنے وطن واپس آ سکیں پاکستانی سفارتی مشنوں کو بھی اپنے ہم وطنوں کےلئے زیادہ سے زیادہ آن لائن سسٹم کا اجرا کرنا چاہیے تاکہ وقت ضائع کیے بغیر ان کے مسائل حل ہو سکیں۔حکومت کو غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والوں کو روکنے کےلئے بھی ٹھوس اور موثر حکمت عملی اپنانا ہوگی کیونکہ غیر قانونی جانےوالے لوگ پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔اوورسیز پاکستانیز کو سفارت خانوں اور ایئرپورٹ پر بد سلوکی اور نظام انصاف کی سست روی کے بارے میں بے پناہ شکایات ہیں حکومت کو اعلان کردہ مراعات کے ساتھ ان شکایات کے ازالہ کےلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہیے اوورسیز عدالتوں کے قیام کیساتھ ایک خصوصی سیل قائم کر کے شکایات کا ازالہ کیا جا سکتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے