اداریہ کالم

او آئی سی عرب لیگ مشترکہ اجلاس،ٹھوس لائحہ عملے دینے میں ناکام

idaria

اسرائیل کی غزہ پر جارحیت کے پس منظر میں او آئی سی اور عرب لیگ کا مشترکہ اجلاس ،بدقسمتی سے کوئی واضح اور ٹھوس لائحہ عملے دینے میں ناکام رہا۔تاہم عرب اور اسلامی ممالک کے سربراہان نے اسرائیل کے حق دفاع کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے غزہ میں فوری جنگ بندی، اسرائیلی جارحیت روکنے اور امدادی کارورائیاں شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔او آئی سی اور عرب لیگ کے سربراہان کے مشترکہ اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا کہ صیہونی ریاست کو ہتھیاروں کی فروخت روکی جائے ، اسرائیل کا حق دفاع کا دعویٰ اور غزہ کو مغربی کنارے سے الگ کرنے کا کوئی بھی سیاسی حل قابل قبول نہیں۔اس اہمیت نوعیت کے اجلاس میںجس اقدام کی ضرورت محسوس کی جار رہی تھی یعنی اسرائیل کیخلاف مشترکہ اقدامات پر اتفاق نہ ہوسکا، الجزائر اور لبنان سمیت چند ممالک نے مجوزہ قرارداد میں اسرائیل اور اسکے اتحادیوں کو تیل کی سپلائی روکنے، ان کیساتھ معاشی اور سفارتی تعلقات توڑنے اور امریکا پر خطے کے دیگر ممالک کو ہتھیار اور بموں کی فراہمی کیلئے عرب ممالک کی فضائی حدود استعمال کرنے کی پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔بدقسمتی سے 4عرب ممالک بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے یہ تجویز مسترد کردی اور 11ممالک نے اس کی حمایت کی۔قبل ازیںعرب ممالک کے اجلاس میں مشترکہ اعلامیہ پر اتفاق رائے نہ ہوسکا جس کے بعد عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا،اس میں بھی ایسی پیشرفت نہ ہوسکی۔ حماس نے عرب اور مسلم ممالک سے مطالبہ کیا تھاکہ وہ اسرائیلی سفارتکاروں کو ملک بدر کریں، جنگی جرائم میں ملوث اسرائیلیوں کیخلاف قانونی کمیشن تشکیل دینے اور غزہ کی از سر نو بحالی کیلئے فنڈ قائم کیا جائے۔اہمیت نوعیت کا یہ اجلاس سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں سعودیہ کی میزبانی میں ہوا۔ اجلاس میں غزہ میں جرائم کا ذمہ دار اسرائیل کو قراردیا گیا ہے، مشترکہ اعلامیہ میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی اور اسے جنگی جرم قرار دیتے ہوئے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے، مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر بند کرنے اور اسرائیل کےلئے ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔کہا گیا کہ سلامتی کونسل اسرائیلی جارحیت رکوانے کیلئے فیصلہ کن اور مشترکہ قرارداد منظور کرے، سلامتی کونسل کی طرف سے فیصلہ کن قرارداد منظور نہ ہونے سے اسرائیل کو اپنی جارحیت جاری رکھنے، معصوم شہریوں کو قتل کرنے اور غزہ کو نیست ونابود کرنے کی اجازت ملی ہوئی ہے، کانفرنس میں شریک مسلم وعرب دنیا کے سبھی سربراہان نے دوٹوک اور متفقہ انداز میں غزہ پر اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی جنگ کو مسترد کر دیا اور کہا ہے اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف حق دفاع کا دعوی کوئی جواز نہیں رکھتا۔ اجلاس میں پاکستان سے نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے شرکت کی ۔ نگراں وزیرِ اعظم نے غزہ میں قابض صہیونی فوج کی جانب سے مسلسل اور ظالمانہ جارحیت کی واضح اور شدید مزمت کی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی ظالمانہ کاروائیوں اور غزہ کے غیر انسانی و غیر قانونی محاصرے کو غزہ میں نہتے فلسطینیوں کی شہادتوں، بڑے پیمانے پر تباہی اور نقل مقانی کا ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے جون 1967 سے پہلے کی سرحدوں اور القدس الشریف کے بطور دارلخلافہ کے ساتھ ایک خودمختار، پائیدار، محفوظ اور یکجا فلسطینی ریاست کے فوری قیام کو خطے میں دیر پا امن و سلامتی کی ضمانت قرار دیا۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مملکت کے غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے اسرائیل کو شہریوں کے خلاف جرائم کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا اسرائیل کی وحشیانہ جنگ کو روکنا ضروری ہے، شہزادہ محمد نے غزہ میں ہونے والی انسانی تباہی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا یہ سلامتی کونسل اور بین الاقوامی برادری کی ناکامی کا مظہر ہے۔ خطے میں استحکام لانے کے لیے واحد راستہ قبضے، محاصرے اور آبادکاری کی پالیسی کو ختم کرتے ہوئے فلسطینیوں کو انکے جائز حق کے طور پر آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ قابض اور جارح حکومت کی فوج کو دہشت گرد تنظیم قرار دیں، انہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات رکھنے والی اقوام پر زور دیا کہ وہ انہیں منقطع کریں اور فلسطینیوں کی بھرپور حمایت کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کیساتھ تجارتی بائیکاٹ بالخصوص تیل اور گیس کا لین دین ختم کرنا ترجیح ہونی چاہئے، اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، سربراہ کانفرنس سے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے اپنے خطاب میں کہا سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری اسرائیل کےساتھ کب تک ہر قانون سے بالا تر سمجھتے ہوئے سلوک کرے گی، گویا اسرائیل کو ہر قانون سے بالاتر قرار دے دیا گیا ہے۔عالمی برادری غزہ میں فلسطینیوں کےخلاف اسرائیلی بمباری کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے اپنے خطاب میں کہا ہم جنگ میں دو چار گھنٹوں کا وقفہ نہیں چاہتے، ہم مستقل جنگ بندی چاہتے ہیں اور مسئلے کا مستقل حل چاہتے ہیں،اس کےلئے بین الاقوامی امن کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت ہے۔ اسرائیل غزہ کے بچوں اور خواتین سے انتقام لے رہا ہے، یہ مغرب کیلئے شرم کا مقام ہے جو ہمیشہ آزادی اور انسانی حقوق کی باتیں کرتا ہے۔اجلاس سے مصری صدر عبدالفتاح السیسی ، شامی صدر بشار الاسد کئی دیگر شریک ممالک نے اسرائیل بربریت کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور عالمی برادری کے مایوس کن کردار پر بھی سخت مایوسی کا اظہار کیا تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ جب تک مسلم ورلڈ میں ایکا نہیں ہوتا ،اسرائیل وحشی درندے کو عالمی برادری کی پشت پناہی کی وجہ سے لگام ڈالنا ممکن نہیں ہے، بیشتر عرب ممالک اسرائیل کےساتھ سفارتی پینگیں جھول رہے ہیں ایسے میں اسرائیل کیخلاف مشترکہ اقدامات پر اتفاق نہ ہونا بعید از قیاس نہیں تھا ،اور نہ آئندہ ایسا ممکن دکھائی دیتا ہے۔
غزہ میں ہیلتھ سروس تباہی کے کنارے پر
ڈبلیو ایچ او کے مطابق غزہ کی پٹی میں جاری بمباری کی وجہ سے ہیلتھ سسٹم اپنے گھٹنوں پر آچکا ہے۔ غزہ میں حماس کی وزارت صحت کے مطابق الشفا ہسپتال میں ایندھن کی کمی کی وجہ سے آپریشن معطل کر دیے گئے ہیں۔اسرائیلی بمباری کی وجہ سے غزہ میں صحت عامہ کا نظام مکمل تباہ ہو چکا ہے ۔ ڈبلیو ایچ اوکی ترجمان کے مطابق صحت عامہ کے نظام پر بدترین پیمانے پر حملے ہورہے ہیں۔ہسپتالوں کا خوفزدہ عملہ بے سر و سامانی کے عالم میں علاج کر رہا ہے ۔ ایک طرف ہسپتالوں کا عملہ دوسری زندگیوں کو بچانے کی کوشش کررہاہے تو دوسری طرف اپنی جان کے خوف میں بھی مبتلا ہے۔گزشتہ چار ہفتوں کے دوران ہیلتھ سسٹم پر اتنے زیادہ حملے دیکھے گئے ہیں جن کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔بین الاقوامی قانون کے تحت بالکل واضح ہے کہ ہسپتال یا دیگر طبی امدای سرگرمیاں ہدف نہیں ہوتیں لیکن اسرائیل ہر چیز کو پامال کررہا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق امدادی ٹیموں کو اندر لانے، سامان لانے اور لوگوں کو باہر نکالنے کےلئے انسانی بنیادوں پر مستقل جنگ بندی کی ضرورت ہے،مگرایسا نہیں ہو رہا۔ اس وقت دسیوں ہزار لوگوں کو ہسپتالوں اور اسکولوں میں پناہ لینے کھانے اور پانی تک مناسب رسائی نہ ہونے کی وجہ سے موت کی وادی میں پہنچ رہے ہیں، علاقے کے36 ہسپتالوں میں سے نصف اب کام نہیں کر رہے ہیں۔
قومی ٹیم کی مایوس کن کارکردگی
ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی اتنی مایوس کن رہی کہ وہ سیمی فائنل تک بھی نہ پہنچ پائی۔ انگلینڈ کے ہاتھوں93رنز سے شکست کے بعداسے گھر کی راہ دیکھنا پڑی ہے۔اس وقت ان پر یہ بات صادق آرہی ہے بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔ اب اس حوالے سے طرح طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ لاکھوں کی تنخواہیں لینے والے قوم کو جواب دیں،وہ کس لئے قومی سرمایہ سمیٹ رہے ہیں۔پورے ورلڈکپ میں قومی ٹیم کی خراب پرفارمنس کے حوالے سے بابراعظم کی کپتانی پر تو پہلے ہی سوال اٹھ رہے تھے لیکن ساتھ ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ پر بھی سینئر کرکٹرز نے سنجیدہ سوال اٹھائے دیئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے