کالم

اپنے صحافی بھائیوں سے اظہارِیکجہتی کیلئے

انڈیا ہویابنگلہ دیش،پاکستان ہویا ہم جیسے ترقی پذیرممالک جوں جوں غیرشفاف ہاتھ حکومتوں اوراقتدار میں آرہے ہیں سچ لکھنے سچ بولنے اور حقیقتوں سے پردہ اٹھانے والے صحافیوں کیلئے صحافتی فرائض انجام دینا پہلے سے زیادہ مشکل ہورہے ہیں اورصرف مشکل ہی نہیں ہو رہے جان سے ہاتھ دھونے، جھوٹے اوربے بنیاد مقدمات میں پھنسانے اورزخمی کرنے کے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔گزشتہ دنوں صحافیوں کے خلاف جرائم سے متعلق ایک رپورٹ دیکھ رہا تھا جس میں بتایا گیاہے 2021 اور2022 میںدنیابھر میں آزادی اظہار سے متعلق پابندیوں اور مشکلات میں اضافہ ہوا ہے ۔ گزشتہ برس دنیا بھرمیں 86صحافی قتل ہوئے ہیں۔ اگر حساب لگایاجائے تویہ اوسطاًہر چار روزمیں دنیا میں ایک صحافی کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ 2021میںیہ تعداد55 تھی ۔ رپورٹ میں ان نتائج کو تشویشناک قراردیتے ہوئے کہاگیا ہے کہ حکام ایسے جرائم کو روکنے کے لئے نہ صرف اپنی کوششوں میں اضافہ کریں بلکہ یہ بات یقینی بنائیں کہ ان جرائم کے مرتکب سزایاب ہوں۔اسی طرح صحافیوں کے متعلق ایک رپور ٹ میں بتایا گیاہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے قاتل کھل کر کاروایاں کرتے ہیں
کیونکہ ہمارا نظام انصاف اور مجرموں کے پس پردہ مضبوط اور با اثر افراد مقتول اورمظلوم صحافیوں کو انصاف کی فراہمی میں ناکام نظرآتا ہے۔رپورٹ کے مطابق صحافیوں کےلئے صوبہ سندھ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔اسکے بعدپنجاب پھر بلوچستان اورخیبرپختونخواکا نام آتا ہے۔ پاکستان میں 2013 میں صحافیوں کے تحفظ کاعزم ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے فریڈم نیٹ ورک پلان کی توثیق کی تھی اور کہا تھا کہ صحافیوں کے تحفظ ایکٹ میں اس پلان کو شامل کیا جائے لیکن رپورٹ بتاتی ہے کہ صحافیوں کیخلاف جرائم میں خراب تحقیقات کی وجہ سے پولیس کئی کیسزمیں چالان پیش کرنے تک میں ناکام رہتی ہے جس سے انصاف کا مقصدفوت ہو جاتاہے جبکہ پراسیکیوشن کے کمزورمعیارکی وجہ سے کئی کیسز ٹرائل بھی پورانہیں کر پاتے جبکہ صحافیوں میں سیاسی جماعتوں کے کارندوں کا شامل ہونایاپھرسیاسی جماعتوں سے منسلک صحافیوں کا صحافت میں داخل ہونا،معاشرے کی بے حسی اور اداروں کا اپنے صحافیوں کو برے وقت میں تحفظ دینے کی بجائے منہ موڑ لینا اور بعض اداروں اورطاقتوں کی مداخلت اور مراعات سے صحافیوں کو متحارب گروپوں میں بانٹ دینا بھی صحافیوں اور صحافت کو کمزور کرنے میں اہم کرداراداکرتا ہے۔رپو رٹ کے مطابق 2012سے 2021تک پاکستان میں 53 صحافی قتل ہو چکے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ شہادتیں 2014 میں ہوئیں جب ایک سال میں تیرہ صحافیوں کو شہید کیا گیا۔جبکہ صورتحال اس قدر گھمبیر ہو چکی ہے کہ 2012 کے بعد کوئی ایک سال نہیں گزراجس میں کسی صحافی کی شہادت نہ ہوئی ہواور شہید ہونے والے صحافیوں میں زیادہ تعداد پرنٹ میڈیا کے لوگوں کی تھی۔ایک اندازے کے مطابق سب سے زیادہ تیس فیصد شہادتیں سندھ میں ہوئیں جواعدادوشمار کے مطابق2012 سے 2021تک ہر تیسراصحافی سندھ میں قتل ہوا پنجاب میں 26%بلوچستان اورخیبرپختونخواہ میں 21% شہادتیں ہوئیں جبکہ بنگلہ دیش بھی صحافیوں کے لئے خطرناک ملک ہے جہاں صحافی کے خون کو بہانے میں کسر نہیں چھوڑی جاتی جبکہ انڈیامیں بھی صورتحال ایسی ہی ہے مگر ہم سے کچھ کم۔سوال اٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ہے تو اس میں حکومتی اورطاقتور طبقوں کا جہاں جبراورپولیس تفتیش اور پراسیکیوشن کی کمزوریاں اور صحافیوں کے اندرمتحارب گروپ اور چند دیگرقباحتیںشامل ہیں وہاں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیااداروں پر سیٹھوں کا قبضہ ہے اور اس قبضہ کو مضبوط کرنے والے صحافیوں کا لبادہ اوڑھے کچھ عینک والے جن نما صحافی بھی شامل ہیں جو اعلی صحافتی پوزیشن پر بیٹھ کر اپنے ماتحت صحافیوں کےخلاف کاروائیاں کروانے میں اہم کردارادا کرتے اورماتحت صحافیوں کے معاشی قتل اور دفتری انتقامی کاروائیاں کر کے اطمینان محسوس کرتے ہیں ۔26جنوری کو ملک بھر میں صحافت پر مختلف قسم کی پابندیوں،ارشد شریف کی شہادت اور صحافیوں کو در پیش خطرات کو اجاگر کرنے کےلئے ملک بھر کے پریس کلبوں پر سیاہ جھنڈے لہراتے ہوئے صحافیوں کی جانب سے بھرپور احتجاج کیاگیا ۔لیکن نصف صدی سے اوپر پھیلی میری صحافتی زندگی کا تجربہ کہتا ہے کہ کوئی حکومت یاادارہ صحافیوں کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتی اگر صحافی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے اور متحد ہو جائیں اور صحافیوں کے اندر بے حسی اور لا تعلقی جیسی بیماریاں ختم ہوجائیں اوردفتروں میں بیٹھے ریٹائرڈصحافی نما عینک والے جن ختم ہو جائیں اور جب تک ایسا نہیں ہوتا صحافی مرتے رہیں گے گرفتار ہوتے رہیں گے انتقامی کاروایوں کا نشانہ بنتے رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri