کالم

اہل غزہ کو کیسے عید مبارک کہوں؟

اکتوبر 2023ءسے رمضان کے آخری عشرے تک 38 ہزار فلسطینیوں کی زندگی کے چراغ بجھائے گئے، 1290 بچے بھی جام شہادت نوش کرنے والوں میں شامل تھے۔ چھ ماہ کے دوران اسرائیل کی مسلسل جارحیت نے غزہ مکمل تباہ کر دیا ہے شائد میں اس شہر جاناں کا کوئی گھر اور کوئی خاندان ایسا ہو جس نے شہداءکی تدفین میں حصہ نہ لیا ہو۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے چیخ چیخ کر دھائی دیتے رہے کہ غزہ میں انسانی المیہ جنم لے چکا ، زندگی خوف کے سائے میں قید ہے انسان کو کہاں امان ہے!! ایسے تکلیف دہ اور اذیت سے بھرے دل خراش ماحول میں ہم کیسے فلسطینی مسلمانوں کو عید مبارک کہہ سکتے ہیں ؟غزہ میں رہنے والے تو ہم سے دور ہیں دکھ اور الم کی ان ساعتوں میں کیا مسلمانوں کو ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دینے کا جواز بنتا ہے۔ایک لمحے کے لیے ذرا غزہ کے آس پاس ممالک کی زندگی پر نظر ڈالیں۔ سارے معمولات زندگی روٹین سے چل رہے ہیں ،کچھ بردار اسلامی ممالک کی افواج اشتراک کی چھتری تلے فوجی مشقیں کرتی رہی۔ مسلمان حکمران پورے رمضان کے دوران افطار دعوتوں میں احباب کو مدعو کرتے رہے بلکہ بہت سے مواقع پر خود بھی مہمان بنے اور تو اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں زندگی معمولات کے مطابق چلتی اور چلائی جاتی رہی ۔ عام الیکشن سے صدارتی اور پھر سینیٹ الیکشن تک تمام سیاسی وحکومتی امور بلا ورک ٹوک جاری رہے۔”اے اہل غزہ ہم شرمندہ ہیں “آپ سے آپ کے بزرگوں سے اور بالخصوص آپکے بچوں سے….! ! آپ بہت بہادر‘ دلیر اور شجاعت مند ‘ آپ نے پانی سے روزہ رکھ کر پانی سے افطار کرکے صبر وشکر کے پہاڑ کھڑے کر دئیے۔ آپ کے مسلسل صبر نے طاقتوروں کا غرور خاک میں ملادیا۔ یہ آپ کے صبر کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر کے بعد اب اسرائیل میں یہودی اپنی ہی حکومت اور اپنے حکمرانوں کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔ اللہ کریم آپ کی وطن سے محبت اور اسلام سے عقیدت بھرے جذبات صبح قیامت تک قائم ودائم رکھے ‘ آمین، مقام شکر ہے کہ اللہ پاک کے فضل سے ہمیں بہت سے ملکوں میں جانے کا موقع ملا وہاں رہن سہن تہذیب و ثقافت کو دیکھا وہاں لوگوں کے رویے بھی دیکھے پھر ان کا موازنہ اپنے پیارے وطن کے پیارے لوگوں کے ساتھ بھی کرتے رہتے ہیں اور یہ تلاش کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں کہ خرابی کب کہاں اور کیسے شروع ہوئی جن بنیادوں کی بناء پر ملک پاکستان حاصل کیا تھا وہ کہیں نظر کیوں نہیں آتی؟ ہم ایک بہت ہی عجیب مزاج کی قوم بن چکے ہمارا مزاج یہ ہے کہ سڑک پر نکل آئیں تو ہمیں اتنی جلدی ہوتی ہے کہ لگتا ہے کہ چند لمحوں کے بعد شاید قیامت آنے والی ہے یا یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید کہیں حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ پانچ منٹ کے اندر اندر شہر خالی کرنا ہے اس کے علاوہ ہمارے پاس بہت وقت ہے گھر کے ڈرائنگ روم میں اور آفس میں بیٹھ کر ہم پتہ نہیں پاکستان کی ہر
گھنٹے میں کتنی حکومتیں بنا دیتے ہیں اور گرا دیتے ہیں ہر گھنٹے میں اپنی فوج کے ذمہ کتنی ناکامیاں لگا دیتے بیٹھے بیٹھے انڈیا، امریکہ، اسرائیل سمیت تمام دشمن اسلام کو تباہ برباد کر کے رکھ دیتے ہیں مگر جب عملی طور پر کسی چیز کو کرنے کا موقع آتا ہے تو اس وقت ہم بے بس ہوتے ہیں ہماری بیچارگی آسمانوں پر ہوتی ہے ڈرائنگ روم میں بیٹھے بیٹھے ہم دنیا بھر کو ایٹمی جنگوں سے تباہ برباد کر کے رکھ دیتے ہیں مگر غزہ کے شہیدوں، غازیوں، مجاہدوں اور بچوں کے ساتھ یک جہتی کے لئے ہم یہودیوں اور کی معاونت کرنے والی کمپنیوں کا بائیکاٹ کرنے کی جرات نہیں رکھتے ہاں ایسے میں چند نوجوانوں کی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں جنہوں نے بہت جرات کا مظاہرہ کیا سٹوروں اور باہر ریسٹورنٹس میں جا کر لوگوں کی غیرت کو جگانے کی کوشش کی مگر افسوس کہ ہماری قومی حمیت گہری نیند میںسو رہی ہے اس سلسلے میں ہمارا سیالکوٹ کے ان نوجواوں کو دل کی گہرائیوں سے سلام جنہوں نے انٹرنیشنل برانڈ کے فاسٹ فوڈز میں جاجا کر فلسطین کا جھنڈا لہرایا ہمارا ان نوجوانوں کو سلام جنہوں نے پی ایس ایل کے میچ کے دوران فلسطین کا جھنڈا لہرایا ´ ہمارا ہر اس بچے، جوان اور بوڑھے کو سلام جس نے فلسطین کے مجاہدوں، شہدا ، عورتوں اور بچوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح اظہار یکجہتی کیا !بات تو اتنی سی ہے کہ کیا ہم فلسطینیوں کی بقا کے لئے اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ صہیونی اشیاءکا بائیکاٹ کر دیں یہ یاد رکھیں فلسطین کی بقاءہی مسلمانوں اور اسلام کی بقاء ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے