ایران کو فتح مبارک ہو۔ ایران اسرائیل کو نشان عبرت بنانے والا پہلا ملک بن گیا ہے ۔اس سے پہلے عالم عرب میں کسی جلیل القدر بادشاہ کو اسرائیل کے خلاف تنہا بیٹھ کر سوچنے کی بھی ہمت نہیں تھی ۔حالیہ جنگ میں پہلی بار اسرائیل کے اندر میزائل گرنے سے ناقابل یقین تباہی ہوئی ہے ، اور نوبت متکبر مجرم نیتن یاہو کے اسرائیل کی تباہ شدہ عمارات کے ملبے کے سامنے کھڑا ہو کر واویلا کرنے تک پہنچ گئی ہے۔یاد رہے کہ یہ وہی جنگی مجرم ہے جو غزہ کے ہنستے بستے شہر کو ملبے کا ڈھیر بنانے اور ساٹھ ستر ہزار پرامن انسانوں کو قتل کرنے کا ذمہ دار ہے۔ اس جنگ میں ایران کی کمزوریوں کے باوجود اس کی طاقت اور سخت جانی کا امیج مستحکم ہوا ہے ، جبکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ عرب ریاستیں حسب سابق ماتحت اور زیر استعمال غلام ہی بنی رہیں گی۔مئی 2025 میں ہم پاکستانی بھارت کے تین روزہ حملوں اور ان کے نتائج کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہے تھے کہ اچانک 13جون کو اسرائیل نے بغیر کسی امکان کے ایران پر شدید حملوں کا آغاز کر دیا۔ اسرائیل نے یہ حملے ایک آزاد و خودمختار ریاست پر تمام تر بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے شروع کئے تھے،اور بلاشبہ اس جرم اور اپنی حدود سے متجاوز حرکت میں اسے امریکہ کی مکمل اعانت اور پشت پناہی حاصل تھی۔امریکہ کے ڈرامہ باز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو نیوکلیئر معاہدے کیلئے مزاکرات کے جھانسے میں الجھا رکھا تھا۔دو روز بعد مزاکرات کا تازہ دور شروع ہونے والا تھا کہ ایران کو غافل پا کر اس پر حملہ کر دیا گیا۔حملہ کیا تھا، یہ جنگوں کی تاریخ کا پہلا حملہ تھا جس کے پہلے چند گھنٹوں کے اندر اندر ایران کی عسکری قیادت کو ان کے گھروں کے اندر ہی قتل کر دیا گیا۔اس جرم کیلئے اسرائیل نے ایران کے اندر ایک طویل تیاری کے بعد اپنے ایجنٹوں کا ایک جال بچھا رکھا تھا۔ان ایجنٹوں نے اسرائیل کے ہوائی حملوں کے دوران پہلے سے طے شدہ اہداف کو بے خبری میں نشانے پر لے لیا۔ یہ شدید ترین نقصان تھا لیکن جس سرعت سے ایران اس اچانک حملے کے وبال سے باہر نکلا، وہ بھی ایک مثال بن کر جنگی امور کے طالب علموں اور محققین کیلئے حوالے کا کام دیا کرے گا ۔ ایران سنبھل گیا اور پھر نئی عسکری قیادت کے ساتھ اسرائیل پر میزائل حملوں کا آغاز کیا گیا۔ یہ میزائیل حملے اس قدر تسلسل ، تواتر اور اہداف کش تھے کہ جنگ بندی کا اعلان کرتے وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اعتراف کرنا پڑا کہ جنگ کے آخری چند روز ایران نے اسرائیل کا بہت زیادہ نقصان کر دیا تھا۔ایران کی مزاحمت ، نقصان برداشت کرنے کی صلاحیت اور حوصلہ اسرائیل کے مقابلے میں کہیں بلند اور برتر ثابت ہوا ، اس کے برعکس اسرائیل میں ایرانی میزائل حملوں نے جو تباہی مچائء اور اسرائیل کے نام نہاد میزائل ڈیفنس سسٹم کو جس طرح غیر موثر اور بے بس کیا، اس نے جارح صیہونی ریاست کے دماغ میں پلنے اور اچھلنے والے ہر طرح کے کیڑے مکوڑوں کا خاتمہ کر دیا۔ حد یہ ہے کہ اسرائیل میں یورپ سے لا کر بسائے گئے یہودی بھی ملک چھوڑ کر بھاگنے لگے ۔امر واقعہ تو یہ ہے کہ اگر یہ جنگ ایک ہفتہ مزید جاری رہتی تو اسرائیل لڑنے اور تباہی برداشت کرنے کے قابل نہ رہتا ۔شروع شروع میں ؛ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بہت سے دوست ایران اسرائیل جنگ کی صورتحال کو فرقہ وارانہ عینک لگا کر دیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ اس بات پر توجہ نہیں دے رہے تھے کہ اسرائیل یا امریکہ کے میزائیل یا بم مسلمانوں کو نشانہ بنانے سے پہلے ان کا عقیدہ یا فرقہ نہیں پوچھتے ۔دراصل قصہ یہ ہے کہ پاکستان میں عالم عرب کے فرقہ وارانہ اثرات بھی پختہ رہے ہیں۔بس اسی وجہ سے دنیا میں اسرائیل کو پہلی بار طاقت سے جواب دینے اور نشان عبرت بنانے والے ملک ایران کی کھل کر تحسین نہیں کی جارہی تھی ۔یہ نادانی تھی۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایران کی دلاوری اور اسرائیل و امریکہ کے خلاف فتح کی تحسین کی جانے لگی۔ ایران اور اسرائیل کے تعلقات و تنازعات کی اپنی ایک تاریخ ہے، جسے توجہ سے سمجھنا ضروری ہے ۔ رضا شاہ پہلوی کا ایران اسرائیل کا دوست اور مربی ملک تھا ۔لیکن شاہ کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد روحانیان کی حکومت نے اسرائیل کے بارے میں بالکل مختلف حکمت عملی اختیار کی اور پھر لبنان ، شام ،عراق میں مسلح مزاحمتی گروہ اور تحریکوں کی تربیت ، مدد اور اعانت شروع کر کے اسرائیل کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔اس صورت حال کو دیکھنے اور سمجھنے کا ایک مختلف زاویہ بھی دستیاب ہے ،جسکے مطابق رضاشاہ پہلوی والا ایران تو اسرائیل کا دوست اور مداح ملک تھا،لیکن پھر ایران میں رضا شاہ پہلوی کیخلاف جدوجہد اور انقلاب کا پھل بائیں بازو کے انقلابیوں کی جھولی میں گرنے سے بچانے کی خاطر فرانس میں پناہ گزین امام خمینی کی قیادت میں روحانیان کی حکومت کو یقینی بنایا گیا۔ایک تاثر یا گمان یہ بھی ہے کہ ایران میں بائیں بازو کے جدید تعلیم یافتہ دانشوروں اور سیاستدانوں کی بجائے ایران کا اقتدار روحانیان کے حوالے کرنے میں امریکی منشا اور اعانت شامل رہی تھی ۔ایک قیاس یہ بھی رہا ہے کہ؛ ایران میں بائیں بازو کی ایک جدید ریاست کی بجائے ایک سخت گیر مذہبی ریاست بنانا آئیندہ پچاس سال کیلئے مشرق وسطی پر امریکی اور اسرائیلی مفادات اور تسلط کیلئے ضروری خیال کیا گیا تھا ۔ امریکی مقاصد میں سب سے بڑا مقصد ایران کی سخت گیر مذہبی ریاست کی طرف سے اسرائیل کی مخالفت اور پراکسیز کے ذریعے مزاحمت تھا۔ مزاحمت کے اس عمل نے اسرائیل کو امریکہ اور یورپ کی ہر طرح کی مدد اور اعانت کا مستحق بنا دیا ، اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ مشرق وسطی میں امریکی اور یورپی صیہونیوں کے نام پر اپنی غارت گری کو روبہ عمل لاتے ہیں ، تو درست ہو گا۔ ایک اور پہلو جس کی طرف کم توجہ دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل دنیا کے پرامن ،علم دوست،معیشت فہم اور انسان دوست یہودیوں کی نمائندہ ریاست نہیں ہے ۔یہ انتہا پسند صیہونیوں کی ریاست ہے ،جن کا بنیادی منصب مسیحی یورپ اور امریکہ کے ایما پر فلسطینیوں اور مشرق وسطی کے مسلمانوں کو نفرت و حقارت کا عنوان بنانا اور رفتہ رفتہ غیر مستحکم کرتے جانا ہے۔پوچھا جا سکتا ہے کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسیحی پورپ(اور اسی کی توسیع امریکہ)یہودیوں کیساتھ اپنی صدیوں پر پھیلی مخاصمت اور دشمنی کو یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت اور دشمنی میں تبدیل کر کے سیاسی فواید حاصل کرنا چاہتا ہے ۔سرزمین فلسطین پر اسرائیلی ریاست کا قیام اسی سلسلے کا نقطہ آغاز تھا۔اسرائیل اگر یہودیوں کی نمائندہ ریاست ہوتی تو وہ فلسطینیوں کے ساتھ اور اسی طرح عالم عرب کیساتھ پرامن بقائے باہمی کے اصول پر اپنے قیام اور دوام کی بنیاد بناتی لیکن اسرائیل کے قیام کا مقصد یہودیوں اور مسلمانوں کے بیچ مستقل فساد کی کاشت کرنا تھا،لہذا اسرائیل کو انتہا پسند صیہونیوں کے فاسق تاریخ میں پیوستہ خوابوں اور دعوؤں کے حوالے کر کے دنیا بھر میں یہودیوں کا امیج خراب اور بدنام کیا گیا۔کیا نیویارک میں رہنے والی کثیر یہودی آبادی جانتی ہے کہ ان کے آباو اجداد کو صدیوں تک مسیحی ریاستوں کی نفرت اور تشدد کا شکار رہنا پڑا تھا اور اس تاریک دور میں مسیحی ریاستوں کے ستائے اور دھتکارے ہوئے یہودیوں کو صرف مسلمان ریاستوں میں امان اور پناہ ملتی تھی؟ کیا مسلم اسپین اور کیا سلطنت عثمانیہ اور پھر ایران و ہندوستان، مسیحی ریاستوں کے ستائے اور دھتکارے یہودیوں کیلئے جائے امان بنتی رہیں تھیں۔اور آج بھی مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی حدود سے باہر یہودیوں کی سب سے زیادہ آبادی ایران میں ہے ۔یہ یہودی قدیم سے تہران ، اصفہان اور شیراز میں محفوظ اور پرسکون طریقے سے زندگی گزار رہے ہیں۔
حد یہ ہے کہ ایرانی پارلیمنٹ میں یہودیوں کی نمائندگی کیلئے ایک نشست بھی مخصوص کی گئی ہے۔ایران میں یہودیوں عبادت گاہیں اور حکومت کی نگرانی اور اعانت کے ساتھ چلنے والے یہودی اسکول بھی پائے جاتے ہیں تو بنیادی مسئلہ مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین نفرت و حقارت اور اسی وجہ سے ازلی دشمنی کا نہیں ہے ، بنیادی مسئلہ مسیحی یورپ اور امریکہ کا ہے جو اپنے مزموم مقاصد صیہونی اسرائیل کا ماسک پہن کر پورے کرتے جا رہے ہیں۔اسی لیے مجھے تو یوں لگتا ہے کہ فرنگ کی جان پنجہ یہود میں نہیں ،بلکہ یہودیوں کی پرامن شناخت پنجہ فرنگ کی سخت گیر گرفت میں ہے۔ دنیا کے پرامن اور علم دوست یہودیوں کو ریاست اسرائیل کے فلسطین دشمن اور مسلمانوں کیلئے ہلاکت خیز تصورات سے علیحدگی اور بے زاری کی تحریک چلانی چاہیئے ۔ اس تلخ حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے کہ ؛ مسیحی یورپ اور امریکہ آج بھی یہودیوں کو مبتلائے مصیبت رکھ کر ، یعنی ان کے ساتھ ایک دہشتگرد ریاست اسرائیل کا تصور وابستہ کر کے، اپنی یہود دشمن روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہودیوں کو سمجھ لینا چاہیئے کہ ریاستوں کی سلامتی اور دوام کا تصور صرف پرامن بقائے باہمی کے اصول پر مدار کرتا ہے ، ہلاکت اور تباہی کبھی یک طرفہ نہیں رہتی ۔ یہی بات ڈونلڈ ٹرمپ والے بدمست امریکہ کو بھی سمجھ لینی چاہیئے۔اللہ نہ کرے کبھی ایسا وقت آئے ،لیکن اگر کبھی کوئی انہونی ہوئی تو بات پرل ہاربر تک ہرگز نہیں رہے گی۔ اب صحیح وقت ہے کہ امریکہ کے امن پسند اور علم دوست شہری اپنے پاگلوں، نفسیاتی مریضوں اور انتہا پسندوں کو لگام دینے کی کوشش شروع کریں۔امریکہ کا سدھر جانا اور فساد سے باز آنا عالمگیر امن و سلامتی کیلئے بہت ضروری ہے۔
کالم
ایران،اسرائیل اور امریکہ
- by web desk
- جولائی 1, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 73 Views
- 3 ہفتے ago