اداریہ کالم

ایرانی صدر کا دورہ اور امریکہ طرف سے پابندیوں کا انتباہ

ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ ہو گئے۔ کراچی ایئرپورٹ پر گورنر کامران ٹیسوری اور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے معزز مہمان کو الوداع کہا۔ ایرانی صدر نے دورے کے دوران صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، سندھ اور پنجاب کے وزرائے اعلی اور گورنروں سے ملاقاتیں کیں۔ گزشتہ روز وزیراعلی ہاوس کراچی میں تقریب سے خطاب میں ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاک ایران تعلقات خراب نہیں کرسکتی۔ ایرانی صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات تاریخ، ثقافت، مذہب سے جڑے ہیں، فلسطین کی آزادی ایران کی ترجیح ہے۔ 22 اپریل کو ایرانی صدر3 روزہ سرکاری دورے پر پاکستان پہنچے تھے۔تین روزہ دورے کے دوران پاکستان اور ایران کے مابین مختلف جہتوں پر گفتگو ہوئی، ملاقاتوں میں ایران پاک تعلقات کو مزید مضبوط بنانے، زراعت، تجارت، رابطے، توانائی، عوامی رابطوں سمیت مختلف شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اسلام آباد آمد کے بعد اگلے روز لاہور کے دورے پر پہنچے۔ایرانی صدر اپنے دورہ لاہور کے دوران وزیر اعلی پنجاب مریم نواز اور گورنر پنجاب بلیغ الرحمن سے بھی ملے اور وہ پاکستان کے ممتاز تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی بھی گئے۔ انہوں نے مزار اقبال پر حاضری دی، فاتحہ پڑھی، علامہ اقبال کے مزار پر پھول چڑھائے اور مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات تحریر کیے۔اس سے پہلے جب ایرانی صدر خصوصی طیارے کے ذریعے اپنے اعلی سطحی وفد کے ہمرا لاہور پہنچے تو وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پران کا پرتپاک استقبال کیا اور مہمانوں کو لاہور آمد پر خوش آمدید کہا۔ اس موقعے پر سینیئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب، سینیٹر پرویز رشید، وزیر اطلاعات عظمی زاہد بخاری، وزیر خزانہ مجتبی شجاع الرحمن سمیت دیگر حکام ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ اس موقع پر ایرانی قونصل جنرل مہران مواحدفر اور دیگر حکام بھی موجود تھے۔لاہور میں مختلف تقریبات میں کی جانے والی اپنی تقریروں میں ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی نے پاکستان اور پاکستان کے عوام کے لیے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا ۔ ایرانی صدر نے مزار اقبال آمد پر میڈیا کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ پاکستانیوں اور ایرانیوں کے دل ہمیشہ جڑے رہیں گے اور انہیں پاکستان آکر اجنبیت کا بالکل احساس نہیں ہوا۔ان کا کہنا تھا، پاکستان کے لوگوں کو سلام پیش کرتا ہوں، پاکستان اور ایران کے دل ہمیشہ ایک دوسرے سے جڑے رہیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ علامہ اقبال نے پیغام دیا کہ کیسے جبر کےخلاف کھڑا ہونا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ غزہ سے متعلق پاکستان کے اصولی موقف کو سراہتے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ فلسطینی کامیاب ہوں گے۔لاہور میں مصروف وقت گزرانے بعد وہ کراچی چلے گئے۔ایرانی صدر کا دورہ پاکستان دونوں پڑوسی ممالک کے مابین اس سال جنوری میں ایک دوسرے کے خلاف براہ راست حملوں اور عرب خطے میں اسرائیلی بربریت کے تناظر میں اہم سمجھا جا رہا ہے۔اگرچہ ایرانی صدر کا پہلے سے طے شدہ اسلام آباد کا یہ دورہ ایران اور اسرائیل کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد شکوک و شبہات کا شکار ہو گیا تھا تاہم مقررہ وقت پر اس دورے کا ہو جانا دونوں ممالک کے لئے خوش آئند ہے۔اسرائیل کے معاملے میں پاکستان اور ایران ک یکساں موقف ہے۔ پاکستان نے مشرق وسطی میں تمام فریقین سے مطالبہ کیا ہے، ”وہ انتہائی تحمل کا مظاہرہ کریں اور کشیدگی میں کمی کی طرف بڑھیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے، جواپنی ریاستی پالیسی کے تحت اسرائیل کی غزہ میں جاری جنگ کی مخالفت کرتا ہے اور اقوام متحدہ میں بھی اس حوالے سے فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھاتا آیا ہے۔ایران کی طرح پاکستان کے بھی اسرائیل کےساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔پاکستان اور ایران جہاں اسلامی بھائی چارے میں جڑے ہوئے ہیں وہاں دونوں ممالک مابین وسیع تر تجارتی مواقع بھی موجود ہین جن بھرپور طریقے سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔لیکن یہاں سب بڑی رکاوٹ امریکی رویہ ہے جو ترقی پذیر ممالک کو در پیش رہتا ہے۔امریکہ کی ایران کے ساتھ تلخ کشیدگی ہے مگر پاکستان امریکہ کا الائی ملک ہے۔سفارتی تعلقات بھی بہتر طریقے سے چل رہے ہیں لیکن اسکی بلیک میلنگ میں بھی کمی نہیں آئی،پاکستان کو جس طرح کی معاشی کا سامناہے،اس سے امریکہ اچھی طرح آگاہ ہونے کے باوجود جب اس نے چین یا ایران کے ساتھ کسی قسم تجارتی روابط بڑھانے کی کوشش کی اس نے ہمیشہ ہی روڑے اٹکائے۔ایرانی صدر کے دورے اور بھاری معاہدوں کے سامنے آنے کے بعد امریکہ نے ایک بار پھر ایران کے ساتھ تجارت کرنے والوں کو خبردار کردیا ہے کہ انہیں پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق واشنگٹن میں پرس بریفنگ کے دوران نائب ترجمان محکمہ خارجہ ویدانت پٹیل سے ایک صحافی نے ایرانی صدر کے دورہ پاکستان اور ان کے دورے کے دوران8مفاہمتی یاد داشتوں اور دو طرفہ تجارت کو 10ارب ڈالر تک لے جانے کے اتفاق پر سوال کیا تو انہوں نے واضح کیا کہ ایران سے تجارت کرنے والوں پر ممکنہ پابندیاں لگ سکتی ہیں، تمام ممالک کو پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیتے ہیں، تاہم پاکستان خارجہ پالیسی کے تحت ایران کے ساتھ معاملات دیکھ سکتا ہے۔ اسی طرح چند روز قبل امریکہ کی چین اور بیلاروس کمپنیوں پر پابندیوں کی وجہ سے پاکستان متاثر ہوا ہے۔اس ضمن میں بھی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ یہ ادارے تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی ترسیل کے ذرائع تھے۔امریکہ یہ رویہ یقینا کئی سوالات کو جہاں اٹھاتا ہے وہاں اس کے دوغلے پن کو بھی واضح کرتا ہے۔ہمارا پڑوسی ملک بھارت ایران اور روس دونوں سے بیک وقت تجارتی روابط رکھتا ہے ،حتی کہ روس سے تو اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے کر رہا ہے مگر وہاں وائٹ ہاو¿س آنکھیں چرا لینے میں دیر نہیں لگاتا،اس دوہرے معیار کی وجہ سے پاکستانی عوام میں امریکی پالیسیوں سے نفرت کا گراف بہت بلند ہے،اس بارے میں امریکی پالیسی سازوں کو سنجیدگی سے غورکرنا ہو گا۔
مودی کے جھوٹوں کا پلندہ بے نقاب
نیو یارک ٹائمز کے آرٹیکل میں مودی کے جھوٹوں کا پلندہ بے نقاب کردیا، رپورٹ کے مطابق مودی کے ہندوتوا نظریے نے بھارتی شہریوں کے دل میں ہر غیر ملکی چیز اور انسان کیلئے نفرت اور بے اعتباری کے بیچ بو دیے ہیں، ایودھیا کے ہوٹلوں میں صرف ویجیٹیرین کھانا دستیاب تھا اور سڑکوں پر گائے کھلی گھوم رہی تھیں، یہ دونوں باتیں مسلمانوں کیخلاف تعصب اور ہندو انتہا پسندی کی واضح مثالیں ہیں، رام مندر کے باہر دکانوں پر نفرت انگیز ہندو مردانگی کو ظاہر کرتی رام اور ہنومان کی مورتیاں بیچی جارہی تھیں جس میں رام کو 6 پیک اور مسلز کیساتھ پیش کیا گیا ہے، اپنی دس سالہ حکومت کے دوران مودی نے جمہوریت کا دعویٰ کیا ہے لیکن ایودھیا میں جمہوریت کے برعکس ہر شہری چاہے ہندو ہو یا مسلم کو ہندوتوا پالیسی پر چلنے کیلئے مجبور کیا جاتا ہے، مودی کا ہندوستان شدید عدم مساوات، بیروزگاری، صحت عامہ کی ابتر صورتحال اور موسمیاتی تبدیلی کی بڑھتی ہوئی تباہ کاریوں سے دوچار ہے، مودی دنیا کے متنوع ترین ملک انڈیا کو کلسٹروفوبک اور انتہا پسند ہندوستان میں تبدیل کر کے ان بحرانوں کو حل نہیں کرسکتا، بھارت کو درپیش مسائل اور اپنی ناقص کارکردگی سے مودی سرکار خود بھی واقف ہے اور اسی لیے انتخابات کے پیش نظر خوفزدہ نظر آتی ہے، اپوزیشن جماعتوں کیخلاف کریک ڈاﺅن، الیکٹورل رولز اور ووٹنگ مشینوں میں چھیڑ چھاڑ اور اپوزیشن کے مالی وسائل منجمد کرنا کسی خود اعتماد گروپ کی نشانی نہیں ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے نام والی تمام شاہراہوں کے نام تبدیل کرکے ہندو نام رکھ دئے گئے ہیں 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی، نئے قوانین برائے بھارتی شہریت، مسلمانوں کی حق رائے دہی سے محرومی اور رام مندر کی تعمیر سے مودی نے مکمل طور پر انڈیا کو محض ایک ہندو ریاست میں تبدیل کر دیا ہے، مودی کے چمکدار رام مندر کے پیچھے انتہا پسند اور پر تشدد ہندوﺅں کی کاروائیاں اور غریب اقلیتوں پر ظلم و جبر کی داستان لاکھ کوششوں کے باوجود بھی چھپائی نہیں جاسکتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri