شنگھائی تعاون تنظیم کا اگلے ہفتہ اسلام آباد میں ہونیوالا سربراہ اجلاس عالمی تناظر میں انتہائی اہم ہے خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں چار نیوکلر طاقتیں ایک میز پر اکٹھی ہوں گی اجلاس میں رکن ممالک کے سربراہان مملکت اور نمائندہ وفود شریک ہوں گے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی اجلاس میں شرکت خوش آئندہ اچھا اقدام ہے پاکستان کو اسے مثبت لیناچاہیے ۔تنظیم کے سربراہ اجلاس کی میزبانی پاکستان کیلئے ایک اعزاز ہے ۔طویل عرصے بعد اس پیمانے اور نمائندگی کی سطح کے ایونٹ کی میزبانی کرنے پر ملک کے وقار اور ساکھ میںاضافہ ہو گا۔مشرقی وسطیٰ کی موجودہ صورتحال میں اجلاس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے کیونکہ اس میں روس اور چین بھی شریک ہوں گے اور یہ دونوں ممالک فلسطین کے معاملے پر یورپ سے مختلف موقف رکھتے ہیں ۔میزبان ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی کوشش ہوگی کہ اجلاس اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب ہو۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا پلیٹ فارم پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری لانے کیلئے کردار ادا کر سکتا ہے لیکن کسی بریک تھرو کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا اجلاس اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ کسی بھارتی وزیر خارجہ کا 10 سال میں پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہوگا ۔اگرچہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا ہے کہ وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات پر بات چیت نہیں ہوگی صرف تنظیم کے ایک رکن کی حیثیت اجلاس میں شریک ہوںگا۔ پاکستان بھارت کے ساتھ تنازعات کو پر امن طور پر حل کرنا چاہتا ہے دونوں ممالک کے درمیان مستقبل کے تعلقات کے بارے میں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے اگر معاملات کو منظم طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی گئی اور بھارت کا رویہ مثبت رہا تو اجلاس میں سفارتی پیشرفت ممکن ہو سکتی ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات اس وقت کشیدہ ہوگئے تھےجب پانچ اگست 2019 میں بھارت نے یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی نیم خود مختاری ختم کر کے اسے بھارت کا حصہ بنا لیا اور کشمیریوں پر سخت پابندیاں عائد کر دیں اس وقت پاکستان نے بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت کو معطل کر دیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک کشمیر کے حوالے سے بھارت اپنے فیصلے واپس نہیں لیتا تعلقات بحال نہیں ہوں گے ۔اجلاس کے موقع پر پاکستانی قیادت کی اعلی سطی سائیڈ لائن ملاقاتیں بھی متوقع ہیں جن میں فلسطین کشمیر تنازعات اور افغانستان کی صورتحال کے علاوہ اقتصادی اور تجارتی روابط بڑھانے کے حوالے سے بھی بات چیت ہوگی۔شنگھائی تعاون تنظیم نے افغانستان سے انتہا پسندی کے خاتمہ سمیت خطے میں امن کی بحالی اور تنازعات کے حل کےلئے ہمیشہ مذاکرات اور مشترکہ اقدامات کی حمایت کی ہے ۔مسئلہ کشمیر بھی تنظیم کے ایجنڈے پر ہے بھارت اور پاکستان دونوں کو مسائل اور تنازعات بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ پاکستان کےلئے یہ اجلاس دور رس نتائج اور اہمیت کا حامل ہے کہ وہ افغانستان اور مسئلہ کشمیر کے حل کےلئے رکن ممالک کو مشترکہ لائحہ عمل پر قائل کرے اجلاس میں افغانستان پر زور دیا جائے کہ وہ دہشتگردی کیخلاف موثر اقدامات اٹھائے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ افغانستان کی سر زمین کسی دوسرے ملک کےخلاف استعمال نہ ہو اس حوالے سے افغان حکومت سے بامعنی بات چیت کی جائے۔ بھارت بھی اگر تنظیم کے مقاصد کے حصول میں مخلص ہے تو اسے بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا ہوگا تاکہ رکن ممالک کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کےلئے اقدامات کیے جا سکیں۔ دیکھا جائے تو دنیا کی 40فیصد ابادی کیساتھ تین براعظم پر پھیلی تنظیم دنیا کی سلامتی امن اور ترقی پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ تنظیم کے قیام کا مقصد رکن ممالک کے درمیان مضبوط رشتے قائم کرنا ہے جس میں باہمی اعتماد دوستی اور اچھے تعلقات کو مضبوط کرنا شامل ہے تنظیم کے چارٹر کے مطابق رکن ممالک کے درمیان اچھے تعلقات ، تجارت اور معیشت کے ذریعے موثر تعاون کو فروغ دینا ہے اس سمت میں پاکستان اور بھارث کے درمیان بہتری لائے بغیر تجارت اور معیشت جیسے معاملات میں علاقائی پیشرفت مشکل دکھائی دیتی ہے شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری لانے کی امید کی جا سکتی ہے اور یہ غلط بھی نہیں لیکن اس حوالے سے فوری طور پر کچھ پیش رفت ہونا شاید ممکن نہ ہو تاہم اس سے بڑھتے ہوئے تنا کو کم کرنے کا آغاز ہو سکتا ہےاور اس کیلئے تنظیم کا پلیٹ فارم بہترین ہے۔ حکومت نے اجلاس کے لیے اگرچہ اسلام اباد میں سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے ہیں لیکن بلوچستان میں سیکیورٹی کے واقعات دشمن کی کارروائی ہو سکتی ہے پاکستان اس مرتبہ ایس سی او کی میزبانی کر رہا ہے جو بہت سارے لوگوں کو کھٹکتی ہے ۔شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان کے مستقبل کےلئے بہتر نتائج کا حامل ہو سکتا ہےاس اہم موقع پر اپوزیشن اور حکومت کو سیاسی اختلافات پس پشت ڈال کر قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ مہمانوں کو کوئی منفی پیغام نہ جائے۔