سنجیدہ حلقوں کے مطابق یہ بات اب کوئی راز نہےں رہی کہ حالیہ الیکشن کے بعد سے ملک بھر میں سوشل میڈیا کی وساطت سے ایسی ایسی کہانیاں گھڑی جا رہی ہےں جن کو دیکھنے اور سننے کے بعد بہت کچھ دھندلا کر رہ گیا ہے گویا سچ اور جھوٹ کے مابین تمیز کرنا خاصا مشکل ہو چکا ہے ۔ایسے میں غالبا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی خواہشات کو ترک کرکے معقولیت کی راہ اپنائے اور انتخابی نتائج کو ان کی صحیح روح کے مطابق تسلیم کرئے کہ اسی میں ملک و قوم کی حقیقی فلاح پوشیدہ ہے ۔اسی تناظر میں این اے 79کا تذکرہ بھی بےجا نہ ہوگاجس کے مطابق این اے 79گوجرانوالہ میں تعینات پولنگ آفیسر طاہر ابرار کا الیکشن میں دھاندلی کا اعترافی بیان مبینہ طور پر سوشل ویڈیو پر وائرل ہوا۔وائرل ویڈیو میں طاہر ابرار کا کہنا تھا کہ میں سرکاری ملازم ہوں اور میری کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے، ہم پر کسی امیدوار یا ایڈمنسٹریشن کی طرف سے کوئی دبا¶ نہیں ڈالا گیا۔طاہر ابرار کا کہنا تھا کہ میری ڈیوٹی ایک دیہی علاقے کے پولنگ اسٹیشن میں تھی۔ اسی حوالے سے گوجرانوالہ میں سوشل میڈیا پر وائرل وڈیو پر فوکل پرسن شبیر حسین کا موقف بھی سامنے آیا جس میںا یڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل کا کہنا تھا کہ طاہر ابرار ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا ملازم ہے جس کی ڈیوٹی این اے 79 میں پولنگ آفیسر لگائی گئی تھی اور ویڈیو میں بات کرنے والا آفیسرپریزائڈنگ آفیسر نہیں پولنگ آفیسر ہے۔،فوکل پرسن شبیر حسین بٹ کے مطابق الیکشن رزلٹ اور فارم 45 کا مکمل ذمہ داری پریزائڈنگ آفیسر اور سینئر اسسٹنٹ پریزائڈنگ آفسیر کی ہوتی ہے ۔ ذرائع کے مطابق طاہر ابرار گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول چھٹہ کے پولنگ اسٹیشن نمبر 226 پر تعینات تھا اور گورنمنٹ فقیر محمد ڈگری کالج میں لائبریرین کی نوکری کرتا ہے ۔ دوسری جانب لیاقت چھٹہ کے بیانات بھی کسی سے پوشیدہ نہےں ایسے میں اس بات سے انکار شائد ہی ممکن ہو کہ وطن عزیزمیں محض انتخابات کا انعقاد ہی کافی نہےں بلکہ ان کے نتائج کو تسلیم کرنا ہی اصل اہمیت کا حامل ہے ۔اسی تناظر میں ن لیگ اور پی پی میں حکومت سازی کے معاملے پر اتفاق رائے سامنے آچکا ہے ۔سبھی جانتے ہےں کہ ملک کو اس وقت محض معاشی مسائل کا ہی سامنا نہےں بلکہ خیبر پختوانو اور بلوچستان سمیت ملک کے کئی حصوں میں دہشتگردی نئے سرے سے پنجے گاڑ رہی ہے اور اس کا مقابلہ تبھی کیا جا سکتا ہے جب سبھی طبقات اپنے سطحی مفادات سے اوپر اٹھ کر قومی سلامتی اور معاشی مشکلات کے خاتمے کی جانب اپنی توجہ مبذول کریں کیوں کہ سیاسی لڑائیاں تو بعد میں بھی لڑی جاسکتی ہےں گویا”یار زندہ صحبت باقی“ انشااللہ جب قوم دیگر معاملات سے عہدہ برا ہوجائے گی( ’جو کہ یقینا ہوگی) توپھر ایک دوسرے کےخلا ف بھراس بھی نکال لیں گے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے سنجیدہ حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ انتخابات کا انعقاد جمہوری عمل کا ایک اہم حصہ ہوتے ہےں مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اس وقت جس معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے کیا انتخابات کے نتیجے میں یہ تمام مسائل حل ہوجانے کی امید کی جاسکتی ہے؟ کیونکہ اس امر سے بھلا کون واقف نہےں کہ پاکستان میں الیکشن کے انعقاد سے زیادہ ان کے نتائج کو پوری طرح سے تسلیم کیا جانا ہمیشہ سے اصل مسئلہ رہا ہے ۔کسے علم نہےں کہ 1970کے انتخابی نتائج مکمل طور پر تسلیم نہےں کےے گئے تھے جس کے نتیجے میں پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یعنی مشرقی پاکستان کی علیحدگی عمل میں آئی۔ اس معاملے کے جو دیگر عوامل تھے اُن کی بابت بھی ہر خاص و عام بخوبی آگاہ ہےں۔علاوہ ازیں 1977 میں قومی اتحاد کی جو تحریک چلی اس کا بھی بنیادی سبب انتخابی نتائج کا پوری تسلیم نہ کیا جانا تھا ۔پھر یہی معاملہ آگے چل کر بھٹو صاحب کی پھانسی کی وجہ بنا جسے ایک بڑا حلقہ بجا طور پر ذوالقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے تعبیر کرتا ہے اور اس وقت تو عمران خان نے ایک ایسی فضا قائم کررکھی ہے جس میں وہ اعلانیہ کہتے ہےں کہ اگر وہ برسر اقتدار نہ آئے تو ایسے کسی بھی انتخابی نتائج کو تسلیم نہےں کریں گے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ فی الحال مجموعی ماحول کو نارمل بنانے کی جانب ساری توجہ مرکوز کی جائے ۔ یہاں یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اگر ”کپتان“واقعی قوم و ملک کے ساتھ مخلص ہےں تو انہےں اس طرف توجہ دینی ہوگی۔ کسے علم نہےں کہ پاکستانی مسلح افواج اور عوام اگرچہ عرصہ درز سے دہشتگردی کیخلاف صف آراءہیں اور آئے دن اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں لیکن یہ امر اپنی جگہ باعث تشویش ہے کہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں دہشتگرد نئے سرے سے سر اٹھا رہے ہیں اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے دہشتگردوں کو اپنے قدم جمانے میں آسانی ہو رہی ہے۔ محض چند روز میں بنوں ، لکی مروت، کوہاٹ، شمالی وزیرستان ، مرانشاہ و دیگر علاقوں میں دہشتگردی کے مختلف واقعات پیش آ ئے جن میں سیکورٹی فورسز کے متعدد اہلکار اور عام شہری شہید ہو چکے ہیں۔ حالانکہ خیبرپختونخوا حکومت اور عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران کئی بار قومی اداروں کی جانب سے انھیں خبردار کیا گیا کہ صورتحال بگڑتی جا رہی ہے لیکن باربار کی یقین دہانیوں کے باوجود اس ضمن میں کوئی عمل درآمد نہیں ہوا اور ساری توانائیاں سیاسی بیانیہ مرتب کرنے پر صرف کی جاتی رہیں اور زمینی صورتحال جوں کی توں برقرار رہی۔ کسے معلوم نہیں کہ ماضی قریب میں آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے دوران اس وقت کی حکومتوں اور قومی سلامتی اداروں نے دہشتگردی کی لعنت پر بڑی حد تک قابو پا لیا تھا حالانکہ اس کے لئے سیکورٹی اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی جانوں کی قربانی دینا پڑی تھی۔ اگر 9 سال قبل کے پی کے میں حکومت بنانےوالی پی ٹی آئی چاہتی اور اس حوالے سے ذرا سی بھی نیت ہوتی تو جامع اور مربوط حکمت عملی کے تحت صورتحال کو بڑی تک مثالی بنایا جا سکتا تھی مگر
کم ہونگے اس بساط پر ہم جیسے بد قُمار
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
عوام کے جان و مال کا تحفظ کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے جبکہ کے پی کے حکومت کی پوری کابینہ لاہور میں زمان پارک کے باہر بیٹھ کر کپتان کی خوش آمد میں مصروف نظر آتی رہی اور اسی غفلت کے باعث صوبے میں امن و امان کا شدید بحران پیدا ہو ا۔ پاکستان کو حقیقی آزادی دلوانے کے دعویدار کپتان بھی سرے سے دہشتگردی کو غالباً کوئی اہم مسئلہ ہی نہیں سمجھتے اور انکا تمام تر زور بیان بازیوں پر ہے۔ بہرکیف اس صورتحال کے جائزے کے بعد غالباً یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وطن عزیز کے سبھی حلقے ملک میں جاری باہمی رسہ کشی کو وقتی طو پر ہی سہی ایک جانب رکھ کر اپنی تمام تر توانیاں ملک کی معاشی ، سیاسی اور معاشرتی بہتری کیلئے صرف کریں کیونکہ ایک دوسرے کیخلاف سیاسی پوائنٹ سکورنگ تو بعد میں بھی کی جا سکتی ہے۔ ملک کا اولین مسئلہ بلاشبہ معاشی عدم استحکام اور قومی سلامتی کے معاملات ہیں۔
کالم
این اے 79۔نتائج تسلیم نہ کرنے کی منفی روش
- by web desk
- فروری 22, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1125 Views
- 1 سال ago
