کالم

ایک بے خواب دوپہر کی بے سمت غنودگی

اطبا کے نزدیک دوپہر کے وقت کھانا کھانے کے بعد ہلکی سی نیند یعنی قیلولہ کرنا صحت جسمانی اور کیفیات ذہنی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بہت سارے دوست قیلولہ کرنے کے بعد ، اسے ناکافی خیال کرتے ہوئے لمبی تان کر سو جانے میں عافیت اور راحت محسوس کرتے ہیں۔ بیشتر کے پاس دن کو ڈٹ کر سونے کا جواز یہ سوال ہوتا ہے کہ نیند کیوں رات بھر نہیں آتی ؟ ان کا دھیان اس حقیقت کی طرف نہیں جاتا کہ دن کو خراٹے بجا لینے والوں کو پر سکون رات اپنے ساتھ بے تکلف نہیں کیا کرتی۔پھر اطبا یہ بھی کہتے ہیں کہ کھانا دن میں صبح اور شام کو صرف دو بار ہی کھانا چاہئے ۔دوپہر
کے وقت کوئی ہلکی پھلکی چیز ، کوئی پھل ، کوئی بسکٹ یا اگر آپ گھر پر ہیں اور ایک افسانہ نگار بھی ہیں تو ماں کی ہلکی سی ڈانٹ بھی کافی ہوتی ہے لیکن صنوبر الطاف کے افسانوں کے مجموعے کا عنوان اطلاع دے رہا ہے کہ افسانہ نگار دوپہر کو بھی بے خواب رہتی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ شاید وہ سارے خواب عالم بیداری میں ہی دیکھ اور سمیٹ لینے کا ہنر جان گئی ہے ۔اور اگر وہ خلوص نیت سے سونے کی کوشش کرے بھی، تو نیند کے پاس اس کے لیے کوئی گیت ، کوئی ترغیب یا کسی خواب کا کوئی وعدہ نہیں ہوتا۔لہٰذا وہ اپنے ہر تاثر ، ہر کیفیت کو مکرر سوچتی ، دیکھتی اور سمجھنے کی کوشش کرتی رہتی ہے ۔زندگی نام کے کھلے میدان میں کھڑی صنوبر الطاف کی آنکھیں اور اردگرد دیکھنے کا انداز کچھ اس طرح کا ہے جیسے کوئی ذہین مگر شرارتی بچہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کسی ایسی چیز کا انتخاب کر رہا ہو ، جسے وہ اٹھا کر خوشی سے چلاتے ہوئے بھاگ کھڑا ہو گا ۔
صنوبر الطاف کے پاس کہنے اور بتانے کےلئے بہت کچھ ہے ، اسی لیے وہ اپنے مافی الضمیر کی احسن طریقے اور موزوں سلیقے سے رواں ترسیل کے راستے تلاش کرتیں رہتی ہے۔ اس کی نظموں کے مجموعے کائنات کے بیک یارڈ سے کو دیکھ پڑھ کر میں نے اس تاثر کا اظہار کیا تھا کہ؛ "کائنات کے بیک یارڈ سے کی نظمیں زیادہ تر نامکمل افسانے نظر آتے ہیں۔”اس کے سوچنے سمجھنے اور سمجھانے کے سارے سلیقے افسانے کا پیراہن مانگتے ہیں ، اس کے خیالات ، تجربات ، مشاہدات اور خدشات چھت پر بندھی دھوپ میں کپڑے سکھانے والی تار سے لٹک کر لہرانے والے اسکارف کی مانند نہیں ہیں، کہ جو تحریر ہو کر نظم بن سکیں، وہ بڑے ڈائننگ ٹیبل پر بکھری کتابوں ، بے ترتیب کاغذوں ، نیم استعمال شدہ ٹشو پیپر کے متفرق ٹکڑوں، پانی کی ادھ بھری ایک آدھ بوتل، اور چاکلیٹ کے خالی ریپرز کی طرح سے ہیں۔اشیا کے اس بے ترتیب ہجوم میں واقعات اور کردار سانس لیتے دکھائی دیتے ہیں۔یہی وہ بے ترتیب ہجوم ہے ،جہاں افسانہ نگار کے خواب اپنی نیند پوری کرتے ہیں ،اور افسانہ نگار کا قلم انہیں بیدار کرتا رہتا ہے۔ صنوبر الطاف کی نظموں کی کتاب کے بارے میں لکھتے ہوئے میں نے اس خوش گمانی کا اظہار بھی کیا تھا کہ؛ "وہ جانتی ہے کہ ؛ کہانی، آخری ورق پلٹ جانے کے بعد شروع ہوتی ہے”اس کے افسانوں کی ابتدائی خواندگی کان میں سرگوشی کر رہی ہے کہ صنوبر الطاف کو کہنے کی جلدی اور کہانی کے آخری ورق تک پہنچنے کی بے چینی ستاتی رہتی ہے ۔
اس کا علم اور مشاہدے سے معمور اضطراب اسے تیز تیز بولنے والی تحریر کے پاس لے جاتا ہے ۔تیز تیز بولنے والے کبھی کبھی معنی سے کہیں آگے نکل جاتے ہیں۔اور بہت دور پہنچ کر انہیں احساس ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی چیز پیچھے رہ گئی ہے۔ افسانہ ‘ایک بے خواب دوپہر کا فلیش بیک ‘ ایک شکستہ آرزو اور ایک بکھرے خواب کی طویل تاریخ کا تین صفحات پر مشتمل خلاصہ ہے ،اس خواب کو اس خطے کی سلطانی و ملائی و پیری کھا گئی۔ زندگی کے احوال کو تبدیل کرنے اور انقلاب کو کتابوں کے صفحات سے نکال کر زندگی کا حصہ بنانے والے خوابوں کی شکستگی صنوبر الطاف کو بے چین و بے خواب کر دیتی ہے.اس نے واضح اعلان تو نہیں کیا ،لیکن شاید اسے اندازہ ہو چکا ہے کہ ہمارے یہاں تاریکی میں رہنے کو تاریخ اور روشنی سے گریز کرنے کو عقیدہ بنا کر جو تعلیم نچھاور کی گئی ہے۔اس میں کشادہ اور روشن زندگی صرف خواب میں ہی دیکھی اور سوچی جا سکتی ہے ۔وہ خود ایک استاد ہے اور اچھی طرح سے جانتی ہے کہ خواب کا لطف اٹھانے کی شرط اول گہری نیند ہوتی ہے، جسے، بہرحال پورا کرنا افسانہ نگار کےلئے مشکل امر ہے ۔
افسانے ‘سلوٹوں میں پڑی ایک یاد’ ہاسٹل میں مقیم ایک لڑکی کے رات بارہ بجکر تیس منٹ پر کئے گئے ایک تجربے کی بازیافت ہے ، جو شاید پہلا تجربہ نہیں تھا ، لیکن اس تجربے اور اسکے حاصلات کی تفصیل اسے خود اختیار کردہ مساوات کا تجربہ بنا کر پیش کرتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ لڑکی یہاں کی روایت کے مطابق عمل میں اپنی مکمل و مفصل شمولیت پر آزردہ ہونے کا ناٹک نہیں کرتی۔ صنوبر الطاف طویل بات اختصار کے ساتھ اور مختصر بات کو تفصیل کے پیرائے میں بیان کرنے کا ہنر جاننے کے باوجود ، دل کی بات سامنے نہیں آنے دیتی۔وہ زندگی کے تضادات ، ہمارے اردگرد پھیلے کرداروں کے عمل اور ردعمل کی نیوٹن کے قوانین حرکت سے عدم مطابقت ، باہم ٹکرا اور ماحول پر حاوی بےحسی اور لاتعلقی سے واقف و آگاہ اور پریشان ہے۔وہ نہیں جانتی کہ انسان کے اردگرد اتنا درد اور رنج کیوں رہائش پذیر ہے ، وہ نہیں جانتی کہ انسان کے مزاج کے اندر اتنا ظلم اور سفاکیت کیسے گھر بنا کر رہنا شروع کر دیتی ہے۔وہ نہیں جانتی کہ ہر انسان محبت کی تلاش میں رہنے کے باوجود خود محبت کا شجر اور سایہ کیوں نہیں بنتا یا بنتی، وہ نہیں سمجھ پا رہی کہ ہمارے یہاں عورت اور مرد کو یکساں طور پر انسان کیوں نہیں سمجھا جاتا۔وہ حیران ہوتی ہے کہ بعض عورتیں انسان اور بعض مرد ،مرد بننے سے گریز کیوں کرتے ہیں۔
وہ چاہتی ہے کہ اس زندگی کو ، جو اسے جیسی ہے اور جہاں کی بنیاد پر میسر آئی ہے ، تھوڑا سا سنوار سکے ،تھوڑا سا بہتر بنانے کی سعی کر سکے ، وہ زندگی کے چہرے پر چھائی گہری اداسی کو ختم کرنا چاہتی ہے ،وہ زبان و ادب کی استاد ہے ، وہ اچھی طرح سے سمجھتی ہے کہ زندگی کو ایک متجسس طالبہ کی طرح سمجھنا اور دریافت کرنا ،زندگی کے ساتھ”استادی“کرنے سے کہیں زیادہ ارفع اور نتیجہ خیز کام ہے۔یہ جانتے ہوئے کہ؛ کہانی، آخری ورق پلٹ جانے کے بعد شروع ہوتی ہے, میں بھی اب اپنی غنودگی پر قابو پاتے اور نیند سے گریز کرتے ہوئے ‘ایک بے خواب دوپہر کا فلیش بیک کے مفصل و مرتب مطالعے کا آغاز کرنے والا ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے