پہلے میں یہ وضاحت کر دوں کہ مجھے ہندوستان پر حملہ کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے، منہ زبانی حملہ بھی نہیں۔مجھے ہندوستان اور پاکستان کے مذہبی انتہا پسندوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔میں پوری ایمانداری سے سمجھتا ہوں کہ دونوں ملکوں کے مابین کبھی گرم اور کبھی سرد محاربے نے خطے کے محروم طبقات کی پسماندگی میں اضافہ کیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ طبقاتی جدوجہد کو پس منظر میں دھکیلنے کے لیے مذہبی منافرت پھیلانے کا حربہ اس خطے میں سب سے موثر ثابت ہوا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اب محروم طبقات اور بالا دست طبقات کے مابین فاصلہ نوری سالوں میں بھی شمار نہیں کیا جا سکتا ۔ میں اچھی طرح سے سمجھتا ہوں کہ ہر جنگ محروم طبقات کہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے لڑی جاتی ہے۔خیر اب تو جنگ ( جس کا نیا نام دہشت گردی ہے ) دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری بن چکی ہے اور اس انڈسٹری کا سارا منافع امریکہ کی جیب میں جا رہا ہے ۔میری رائے میں پاکستان اور ہندوستان کو جنگ کے امکانات کی جھاڑیوں میں الجھے دامن چھڑا لینے چاہئیں۔میرا خواب ہے کہ خطےکے ممالک یورپین یونین کی طرح کا ایک نظم قائم کر سکیں۔ مجھے لال قلعے پر پاکستانی پرچم نہیں لہرانا۔وہاں ہندوستانی پرچم ہی بھلا لگتا ہے۔مجھے دلی کی سیر کرنی ہے، مجھے آگرہ دیکھنا ہے ، لکھن میں وقت گزارنا ہے۔مجھے اہل کشمیر کی مرضی و منشا کے عین مطابق ایک پرامن ، خودمختار اور خوشحال کشمیر کے دارالحکومت سری نگر ، جو میرے گھر سے صرف تین سو کلومیٹر دور ہے، میں شکارے پر بیٹھ کر ڈل جھیل کی سیر کرنی اور زعفرانی قہوہ پینا ہے۔مجھے ممبئی اور مدراس کو دریافت کرنا ہے ، گوا کے ساحل دیکھنے ہیں ۔مجھے وہ تمام شہر گھومنے ہیں ،جن کا ذکر اردو شاعری میں ملتا ہے، میں جانتا ہوں کہ ایسی خواہش ہندوستانی دوستوں کے دل میں بھی مستور ہو گی۔ ادب اور ادیب اپنی وقعت اور تاثیر کے سبب کسی تقسیم ، کسی ترتیب اور کسی جغرافیائی حد بندی سے ماورا ہوتے ہیں۔ان کو تلخی کو کم اور آگ کو بجھانے کا اہتمام کرنا چاہیئے۔ پچھلے دنوں ہمسایہ ملک سے بلائے گئے فلمی گیت نگار جاوید اختر نے لاہور کےفیض فیسٹیول میں اپنے مہمان ہونے کے رتبے سے تجاوز کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے مابین نفرت کاشت کرنے کی مذموم کوشش کی ہے ۔ وہ کوئی سنجیدہ شاعر نہیں ہیں، لیکن ان کے غیر محتاط انداز گفتگو نے ہمارے عالی مرتبت ادیبوں کے قائم کردہ مینار تحمل و بردباری کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جاوید اختر فلم بازار کا مزاج اور انداز رکھتے ہیں ، شاید اسی لیے ایک اچھے سوال کے جواب میں آپے سے باہر ہو گئے ،اور عالم مدہوشی اور کیفیت تشنج میں وہ کچھ کہنے لگے،جس کا نہ تو کوئی محل تھا ، نہ ضرورت ۔ ویسے اگر کہیں کوئی آگ سلگ رہی ہو یا دھواں اٹھ رہا ہو ،تو ادب اور ادیب اس پر پانی ڈالتے ہیں،نہ کہ سر پر پٹرول سے بھری بوتل رکھ کر ناچنا شروع کردیں۔مجھے فیض میلے کے منتظمین کی ذہنی سطح اور فیض کے مقام و مرتبے سے لاعلمی زیادہ حیران اور پریشان کر رہی ہے۔ انہوں نے فیض فانڈیشن ٹرسٹ بنا کر گویا فیض احمد فیض کو کاروبار بنانے کی سعی کی ہے ۔پاکستان بھر میں کہیں بھی فیض پر کوئی کام کرنا چاہے ،کوئی کانفرنس یا فیض ادبی میلے کا اہتمام ،تو یہ اسے اپنی ملکیت میں مداخلت خیال کرتے ہیں۔اور کوئی تعاون نہیں کرتے۔ان مدہوش لوگوں کو ادراک ہی نہیں کہ فیض پر بات کرنے کے لیے ہندوستان سے کس ادیب یا دانشور کو بلانا چاہیئے تھا۔یہ نادان اپنے علم ، حلم اور ذہنی استعداد کو فیض احمد فیض کے مقام و مرتبے تک لے جانے کی بجائے فیض احمد فیض کو ناٹک منڈلی والوں تک لے آئے ہیں۔دراصل لاہور والے فیض فیسٹیول کے منتظمین ذہنی اور ادبی طور پر فیض احمد فیض سے کوسوں دور ہیں ، ان کے لیے جاوید اختر ایک مارکیٹ ویلیووالی آئٹم تھے ۔ میں ایک ٹی وی چینل پر محترمہ منیزہ ہاشمی صاحبہ ،دختر فیض احمد فیض کے تاثرات سن کر حیران ہوا ہوں۔انہیں جاوید اختر کے تجاوز پر کوئی اعتراض نہیں ہے ،ان کے نزدیک جاوید اختر کی ہرزہ سرائی عام سی بات ہے ۔پی ٹی وی کی اینکر کے یاد دلانے پر کہ گزشتہ سال انڈیا میں آپ کو ایک کانفرنس پر بلا کر ،اس لیے واپس پاکستان بھجوا دیا گیا تھا کہ انڈین اتھارٹیز نے فیض احمد فیض کی دختر کو ایک سال کا ویزہ ہونے کے باوجود انڈیا میں آنے اور کانفرنس میں شرکت کی اجازت نہیں دی تھی۔منیزہ ہاشمی نے اس واقعے کی تصدیق کی ،واقعے کی تفصیل بتائی اور پھر یہ بتایا کہ ان کے اہل خانہ نے انہیں ہدایت کی تھی کہ تم واپس آ جاو، کوئی بات نہ کرنا۔منیزہ ہاشمی کو اس تذلیل پر کوئی تاسف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔وہ بڑی خوش تھیں کہ جب میں نے جاوید اختر کو فون پر پوچھا کہ ہم آپ کو میلے میں ورچول لے لیں ، تو جاوید اختر نے کہا کہ کیا آپ مجھے بلائیں گی نہیں؟ میں نے کہا کیوں نہیں ،اور پھر سب کچھ ہو گیا ۔ منیزہ ہاشمی نے یہ بھی کہا کہ شبانہ اعظمیٰ بھی آنا چاہتی تھیں ،پر وہ کسی فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھیں ،اب اگلے سال آئینگی۔ جب منتظمین کے خیالات اس طرح کے ہوں ، تو پھر گود میں بیٹھ کر داڑھی نوچنے والے کہاں باز آتے ہیں ۔ ویسے مجھے یقین ہے کہ اگر فیض احمد فیض کے سامنے اس طرح کی سیاسی ہرزہ سرائی کی جاتی تو وہ اسے ناپسند کرتے اور ایسی محفل سے ہی اٹھ آتے۔اور قیاس چاہتا ہے کہ ؛اب بھی وہ اپنی صاحب زادیوں اور اپنے ایک عدد نواسے کے طرز فکر وعمل سے بالکل خوش نہیں ہوں گے۔جاوید اختر نے اگر منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مار لیے ہوں ،اور گہرےعنابی یا گہرے سبز رنگ کے پھول دار کرتے سے نکل آئے ہوں ،تو ان کے لیے پیغام یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے ادیب ، شاعر ، نثر نگار اور فنکار دونوں ملکوں کے مابین محبت کے سفیر ہوتے ہیں۔پاکستان میں آکر کس سلیقے سے بات کرنی چاہیئے یہ ہنر دلیپ کمار سے سیکھئے، یا پھر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ، گوپی چند نارنگ، پروفیسر قمر ریئس،جگن ناتھ ازاد، پروفیسر مسعود حسین خان کے سلیقے اور تہذیب کو ذہن میں لایئے ۔یا پھر ایک فون ملا کر الہ آباد کے پروفیسر ڈاکٹر علی احمد فاطمی صاحب سے بات کرنے کا طریقہ سیکھ لیں۔آپ ممبئی میں رہتے ہیں ،ممبئی بڑے مہذب ، دانشور اور زیرک لوگوں کا شہر ہے، سمجھ بوجھ اور گفتگو کرنے کے کچھ اسلوب ان سے ہی سیکھ لیں ۔ کیا پتا آپ کی نیت اور کیفیت بہتر اور مہذب ہو جائے ، کیا پتا؟ ویسے مناسب بات تو یہ ہے کہ؛جاوید اختر کو دو متحارب ملکوں کے معاملات پر اس طرح بات نہیں کرنی چاہیئے تھی۔اپنے ملک میں اپنی حکومتوں کو کوسنا یا طنز و تعریض کا عنوان بنانا تو اب ایک طرح سے فیشن بن چکا ہے ۔ بعض اوقات حکومت خود اپنے رابطے میں موجود شعرا و ادبا سے اپنے خلاف بات کرنے کا کہتیں ہیں ۔لیکن ایک دوسرے ملک میں مہمان کے طور پر جاکر اس طرح کی ہرزہ سرائی کیسے قبول کی جاسکتی ہے؟یہ ہر تیسرے دن عرب امارت میں تقریباتی مہمان کے طور پر موجود ہوتے ہیں ،ذرا جاوید اختر وہاں بادشاہت یا موروثی حکمرانی کےخلاف اسی طرح پکا سا منہ بنا کر بات تو کر کے دکھائیں، اگر وہ انہیں ان کے عنابی یا گلابی کرتے سمیت قریبی سمندر میں نہ بھی پھینکیں ، زندان میں بند تو کر ہی دیں گے۔ اچھا اب اسے ستم بالائے ستم کہیئے یا کچھ اور کہ اب جاوید اختر نے ہندوستان جا کر خود کو ایک فاتح کے طور پر پیش کرنا شروع کر رکھا ہے ۔ انہیں پاکستانیوں نے فیض ادبی میلے میں از راہ محبت پاک بھارت دوستی کے تاثر کو مستحکم کرنے کےلئے مدعو کیا تھا۔لیکن انہوں نے اس موقع کو اپنی زائد بیانی سے نہ صرف ضائع کردیا،بلکہ اپنے ایک متوازن اور روشن خیال اردو دانشور و شاعر کے تاثر پر بھی فاتحہ پڑھوا لی ۔ اب وہ این ڈی ٹی وی پر اپنے متورم چہرے اور ناقص المخرج لہجے میں جتنی بھی انگریزی بولیں ،سچ یہ ہے کہ نہ تو وہ امور خارجہ کے ماہر ہیں اور نہ ہی کوئی سیاسی مدبر ، وہ ایک نادان محض ہیں۔
کالم
ایک ‘نادان محض’ کی ناواجب گفتگو
- by Daily Pakistan
- فروری 27, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 815 Views
- 2 سال ago