لگتا ہے خطوط لکھنے کی روش زور پکڑ چکی ہے۔ عدلیہ کو اپنے ساتھی جج کا ایک اور خط مل چکا ہے ۔ ایک سینٹر بھی اپنے خط کے جواب میں پریس کانفرنس کر چکا ہے۔ادھر بابا کرمو نے بھی ایک غیر معمولی مکتوب لکھا ہے۔ مجھے جب اس خط کی خبر ہوئی تو جہاںدیدہ بزرگ سے ملنے چلا آیا۔بابا کرمو نے پوچھا کیسے آنا ہوا ؟ کہا آپ کے خط کا سن کرحاضر ہوا ہوں۔ کیا ججز کے خطوط سے آپ کو بھی خط لکھنے کا شوق پیدا ہوا ہے۔کہا شوق نہیں ججز کے خطوط نے مجھے بھی خط لکھنے کا حوصلہ دیا ہے۔ پوچھا خط میں لکھا کیا ہے ؟ مسکراتے ہوئے بولے،جب حالات جذبات قابو میں نہ رہیں تو دل جلتا ہے پھر قلم چلتا ہے اور خط لکھا جاتا ہے۔ ملکی حالات دیکھ کر پریشان تھا ۔ پانامہ لیکس کے بعد اب دوبئی لیکس آچکی ہے۔کہا ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ ہم اس دنیا میں سب مسافر ہیں۔ آج یا کل اس دنیا سے چلے جائیں گے۔خالی ہاتھ آئے تھے خالی ہاتھ سب کچھ ہم یہی چھوڑ کرجائیں گے جو چیزیں ہم چھوڑ جائیں گے۔ مرنے کے بعدان کا ہم سے حساب لیا جائےگا۔مسافر تو ہمیشہ ضروری سامان کےساتھ ہی سفر کرتا ہے۔پھر ہم کیوں ایسا نہیں کرتے۔ ہوائی جہاز کے مسافر کودیکھ لیں ۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ساتھ کتنے وزن تک کا سامان ساتھ لے جانے کی اجازت ہے اسی طرح ہم مسافروں کو بھی بتا دیا گیا ہے کہ اس جہان میں تمہارے اعمال اور مال دونوں کا حساب تم سے مرنے کے بعد لیا جائیگا لیکن بہت کم مسافروں کو اس کا یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا ۔ یہ مال و دولت اکھٹی کرنے کیلئے اپنا اعمال نامہ خراب کر لیتے ہیں ۔ جن کو ہم پڑھا لکھا کہتے ہیں جو بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہیں وہ اس دوڑ میں سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں ۔ملکی غیر ملکی جائیدادیں بناتے ہیں۔اکثر یہ دوسروں کا حق مار کر جائدادیں بناتے ہیں۔جب کہ کوئی مذہب قانون ایسا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیتا ۔ غیروں کے ایجنٹ بن کر ان کےلئے کام کرو۔ قومی اداروں کو نقصان پہنچاو¿،انصاف کی کرسی کا غلط استعمال کرو۔ہمارے کرتوت ایسے ہیں کہ ہم روز یوم سیاہ منائیں تو دن کم پڑ سکتے ہیں ۔پاکستان کو دولخت کرنے والے کرداروں کو سزائیں دی جاتیں تو سلیکشن نہیں الیکشن ہوتے۔اپنی مرضی کے سیاست دان نہ اقتدار میں لائے جاتے ۔دشمن کا ساتھ دینے اور ملک کو کمزور کرنے والوں کو سزائیں دیتے تو نو مئی جیسے واقعات دیکھنے کو نہ ملتے۔ ہم نے سیاچن، کارگل، کشمیر پالیسی پر آنکھیں بند رکھیں جس سے ایسے واقعات کا سلسلہ بند نہیں ہو رہا۔ کچھ افسران اور سیاست دان اپنا اور اپنی فیملی کا فیوچر بنانے کیلئے ایسے کام سرانجام دیتے ہیں جن سے ان کے فیوچر تو بن جاتے ہیں تجوریاں بھر جاتی ہیں مگر ملکی خزانے خالی کر جاتے ہیں۔ ایسے مسافروں کے ناموں کی ایک لمبی لسٹ ہے۔ جن کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ ججز کے خطوط سے مجھے بھی خط لکھنے کا حوصلہ ملا خیال آیا شائد کسی مسافر کے دل میں اتر جائے میری بات۔کہا اب آپ بتاو¿ کہ وکلا ہڑتال کیوں کرتے ہیں۔عدالتوں کو تالے کیوں لگاتے ہیں۔ ججز خط کیوں لکھتے ہیں۔ اس کا بھی بتا و¿کہ اب سپریم کورٹ میں مخصوص کیس ہی کیو ں سنے جاتے ہیں پھر آن ائیر کیوں سنے جاتے ہیں ۔ جواب میں کہا بابا جی۔ سب سمجھتے ہیں سب چپ ہیں۔ کوئی کہتا نہیں کہ آپ سے کہوں۔میں ذاتی طور پر وکلا کی ہڑتال کے خلاف ہوں ۔ ہڑتالوں سے سب سے زیادہ نقصان وکلا اور اسکے کلائنٹ کا ہوتا ہے۔احتجاج کے طور پر بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ لیا کریں۔ وکلا کے احتجاج مزدوروں سے ہٹ کر ہونے چاہئیں ۔مزدور احتجاج کرتے وقت روڈ بلاک کرتا ہے پولیس پر پتھر برساتا ہے۔ ڈنڈے مارتا ہے،وکلا تو ڈبل گریجویٹ ہوتے ہیں،یہ انکے قائد کا پروفیشن ہے۔ اس کو وکلا عزت دیا کریں۔ جبکہ وکلا اپنے مسائل حل کرانے میں بری طرح ناکام ہیں ۔یہ جو ججز نے خطوط لکھیں ہیں اسی نوعیت کا کیس شوکت عزیز صدیقی لڑ کر جیت چکے ہیں۔کچھ ججز کو اب سمجھ آئی ہے کہ یہ سسٹم یوں ہی چلتا آرہا ہے۔ اسلئے کہ یہ قانون اور آئین پر عمل نہیں کرتے۔ جس سے سیاہ دن جنم لیتے ہیں لیکن اس پر میں یہ کہوں گا کہ ججز بھی انسان ہیں انکے بھی بیوی بچے ہیں، حلقہ احباب ہے۔ ساتھیوں کی غمی خوشی میں یہ بھی شریک ہوتے ہیں۔گپ شپ کرتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں ججز پر پابندیاں ہیں کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے مگر یہاں ایسی پابندیاں نہیں ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ ججز میڈیا سے ملکی سیاست سے اداروں سے خود کو دور رکھا کریں صرف اور صرف خدا کے قریب رہے اسی سے رشتہ جوڑے رکھیں۔ پھر ہی بہتری آ سکتی ہے۔ججز کو تو بولنا نہیں چائے،ان کی زبان چڑیا جیسی اور کان ہاتھی جیسے ہونے چاہئیں۔ مگر ایسا نہیں ہے۔اکثر ججز کیس کم سنتے ہیں اور خود بے تحاشہ بولتے ہیں جبکہ جج کا کام سنا اور لکھنا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اکثر عدالتیں مچھلی منڈی بن جاتی ہیں۔ یہاں یوں دکھائی دیتا ہے جیسے ججز بیوی بچوں کےساتھ سیاست سے منسلک ہیں ۔بیوی بچے جس سیاسی جماعت کےساتھ ہمدردیاں رکھتے ہیں تمام اداروں میں کام کرنے والوں کی ہمدردیاں اسی جماعت سے ہوجاتی ہیں ۔پھر بعض ججز ویسے ہی فیصلے لکھتے ہیں جیسے انکی بیوی بچے چائتے ہیں جب کہ ہر سرکاری ملازم کو ملکی آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا چاہیے ۔نہ تو ججز کو اور نہ ہی فوج کو اپنی صفائی میڈیا پر دینے کی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے سے مزید انگلیاں ان پر اٹھیں ہیں جو الزامات ان پر ہیں ان کو یہ خود دور کرسکتے ہیں ۔صرف انہیں ملکی قانون اورآئین کے مطابق چلنا ہو گا۔اپنے اپنے اداروں میں سیاست ، رشوت اور سفارش کا سدباب یہ خود کر سکتے ہیں ۔ ملکی سیاست سے تمام اداروں کے ملازمین کو دور رہنا ہو گا۔ مگر یہ رہتے نہیں جب تک خود رشوت کو برا نہیں سمجھتے یہ پھیلتی رہے گی۔ ہمارے سامنے روشنی موجود ہے۔ ایک ماں اپنے بچے کولے کر بڑی ہستی حضرت فرید الدین مسعود شکر گنج رحمت اللہ علیہ کے پاس آئی اور کہا کہ بچہ گڑ بہت کھاتا ہے آپ اسے منع کردیں ۔ فرمایا اسے کل لے کر آئیں۔ ماں نے ایسا ہی کیا ۔آپ نے بچے کو نصیحت کی کہ گڑ نہ زیادہ کھایا کرو۔ ماں نے استفسار کیا یہ بات تو آپ کل بھی کہہ سکتے تھے؟ فرمایا کل تک میں خود گڑ کھاتا تھا بچے کو منع کیسے کرتا ؟ یہ ہے ہمارا اسلام اور ہماری ارفع روایات ہمارے ملک میں کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو رہا اس لیے جو کرپشن ختم کرنے پر ہیں وہ خود کرپٹ ہیں ۔ جب سے اہم کیسوں کی سماعت میڈیا پر دکھانی شروع کر رکھی ہے اس سے فائدہ نہیں نقصان ہو رہا ہے۔سب بے نقاب ہو رہے ہیں۔