ونڈسر کاسٹل (Windsor Castle) ایک وسیع و وعریض رقبے پر محیط تاریخی و قدیمی شاہی محل ہے جہاں شاہی خاندان کی سرکاری رہائش گاہیں ہیں۔یہ شاہی محل برطانیہ کی ریاستی تقریبات اور سرکاری مہمانوں کی میزبانی کےلئے استعمال ہوتا ہے جس کے رانڈ ٹاورقلعے کا ایک نمایاں حصہ سیاحوں کےلئے خاص دلچسپی رکھتا ہے اس سال 2 مارچ بروز اتوار رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی کچھ پہلی بار عجوبہ ہوگیا کہ عالیشان اس شاہی محل میں ایک ہزار سال کے بعد مسلمانوں کے لئے افطار پارٹی کا اہتمام کیا گیا تقریبا ساڑھے تین سو سے زائد مسلمانوں نے کھجوروں اور مشروبات سے روزہ افطار کیا آذان مغرب کی صدائیں اللہ و اکبر اللہ و اکبر کی گونچ شاہی محل کے چاروں کونوں سے ٹکرا گئیں مسلمانوں نے باجماعت نماز مغرب ادا کی اور کھانا تناول کیا ۔ یہاں افطاری کرنےوالوں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایک حیرت انگیز ماحول تھا ایسا لگتا ہی نہیں کہ یہ حقیقت بھی ہوسکتی ہے ۔ سینٹ جارج ہال میںیہ مفت تقریب لندن کی فلاحی تنظیم رمضان ٹینٹ پروجیکٹ نے منعقد کی تھی۔ونڈسر کاسل کے وزیٹر آپریشنز ڈائریکٹر، سائمن میپلز نے کہا کہ بادشاہ عالی جناب چارلس سوئم کئی سالوں سے جس مذہبی تنوع کے فروغ اور بین المذاہب مکالمے کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک طویل سفر طے ہوا ۔
ہم واقعی ایک طویل راستہ طے کر چکے ہیں۔”
شاہی مہمان نوازی روزہ افطاری
مسلم شناخت کو اس تاریخی پس منظر کے ساتھ جوڑنا واقعی ایک اعزاز ہے اس تقریب کے برطانیہ یورپ مغربی سوسائٹی پر دورس نتائج ہونگے۔رمضان المبارک کا ماہ مقدس مسلمانوں کو اللہ تعالی کی خوشنودی کا موقع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنی دنیا اور آخرت اس ماہ مبارک میں سنوار سکیں عزیز و اقارب، پڑوسیوں اور دوسروں کے حقوق پورے کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرکے دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں جبکہ روزہ صبر وشکر کا نام ہے اور مومن کی پوری زندگی صبر وشکر کا خلاصہ ہے ۔اسلامی ممالک میں آباد مسلمانوں کی اکثریت کی طرح کوئی تقریبا 4 ملین برطانوی مسلمان رمضان المبارک میں عبادات کا پوری طرح اہتمام کرتے ہیں ۔ تقریبا چار ہزار سے زائد مساجد میں باجماعت نمازوں، تراویح اور نوافل کا پوری طرح اہتمام کیا جاتا ہے۔ مسلمان آبادی والے شہروں میں تو ہر مسلک اور عقیدے اور ملک بلکہ علاقے کے مسلمانوں کی مساجد ہیں جبکہ اجتماعی افطاریوں کے مواقعوں پر خصوصی محفلوں، ذکر و اذکار اور دعاﺅں کے مناظر دیدنی ہوتے ہیں۔ بعض شہروں میں تو افطاری کے وقت مختلف دکانوں پر شاپنگ کرنے والوں کا رش اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ جیسے پاکستان کے کسی شہر میں ہیں ۔ تاہم یہ امر افسوسناک ہے کہ بعض ایشیائی مسلمانوں کی دوکانوں پر منافع خوری کی غرض سے اشیا خورد و نوش کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ کھجوروں ، گوشت اور دیگر روزانہ استعمال ہونےوالی اشیا مہنگی کر دی جاتی ہیں جبکہ غیر مسلموں کے بڑے بڑے سپر سٹورز پر رمضان المبارک کی خصوصی رمضان آفرز لگائی جاتی ہیں اور آٹا دال، چاول اور دوسری روزمرہ کی اشیا کی قیمتیں کم نرخوں پر فروخت کی جاتی ہیں ۔برطانیہ میں دین اسلام عیسائیت کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے۔بڑے شہروں میں بعض مساجد میں ظہر، عصر اور مغرب کی اذانیں لاوڈ سپیکرز پر کھلے عام دینے کی اجازت ہے جو پورے شہر میں سنائی دیتی ہیں ۔ مسلمانوں کو اپنی عبادات کی پوری آزادی حاصل ہے۔ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے وقت بعض شہروں میں پارکنگ کی پابندی کے قوانین میں بھی نرمی کی جاتی ہے تاکہ مسلمان آسانی سے جمعہ کی نماز ادا کرسکیں لیکن یہاں کے مسلمان بھی مسجد میں جاتے وقت اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ کسی دوسرے کا راستہ بند ہوگا بعض اوقات بسیں اور ایمبولینس بھی پھنس جاتی ہیں ۔ مسلمانوں کے اکثریتی شہروں میں جمعہ اور تراویح کی نمازوں کی جماعتیں بھی دو دو ہوتی ہیں جبکہ نماز کے اوقات کار میں تو پولیس کا گشت بھی بڑھا دیا جاتا ہے تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے ۔ رمضان میں مسلمان نوجوان جو یہاں کے اداروں میں ملازمتیں کرتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں اپنی تعطیلات مختص کرلیں تاکہ وہ سکون سے اپنا روزہ رکھ سکیں موسم گرما میں روزہ یورپ میں تقریباً 19گھنٹوں کا ہوتا ہے ان نوجوانوں کےلئے روزے کی سختی ایک کھٹن مرحلہ ہے ان کے بعض مالکان نے اس حد تک چھوٹ دے رکھی ہوتی ہے کہ وہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کام کے اوقات سے پہلے گھر چلے جائیں اور پھر جب کرسمس کا موقع ہو تو اس وقت وہ اپنے عیسائی ورک میٹس یا ساتھیوں کی اس وقت مدد کریں اور کام سے کمی پوری کر دیں ۔اس معاشرے کی انسانی قدروں کی بلندیوں اور باہم احترام کی ایسی مثالیں دیدنی ہیں۔ مسلمانوں کی کوشش ہے کہ حکومت برطانیہ عیدالفطر اور عید الاضحی پر سرکاری طور پر کرسمس کی طرح چھٹیوں کا اعلان کرے لیکن شاید یہ منزل دور ہے برطانیہ کی جیلوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق کوئی 12 ہزار مسلمان قیدی ہونگے ان قیدیوں کیلئے جیلوںمیں باجماعت نماز جمعہ کیلئے ایک سرکاری طور پر امام تعینات ہوتا ہے جیلوں میں پانچ وقت نماز پڑھنے پڑھانے کا بندوبست بھی ہے کسی قسم کی عبادات پر کوئی قدغن نہیں۔ رمضان المبارک میں جیل حکام کی جانب سے سحری اور افطاری کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے ۔ متعین امام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام انتظامات مسلمان قیدیوں کے جذبات ، عقائد کا بھرپور خیال رکھتے ہوئے کریں۔ پانچ وقت کی نماز، تراویح اور جمعہ کی نماز کا باقاعدہ انتظام کیا جاتا ہے بعض مسلمان قیدیوں کو عید کے روز ایک دن کی چھٹی بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ عید گزار سکیں۔ یاد رہے کہ یہاں قیدیوں کو جیب خرچ بھی ملتا ہے جیل میں تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ مختلف ہنر بھی سکھائے جاتے ہیں ۔امیگرنٹس کو انگریزی بھی سکھائی جاتی ہے تاکہ وہ اپنی سزا کاٹ کر معاشرے میں دوبارہ با عزت طریقے سے اپنی زندگی گزار سکیں ۔بعض قیدی تو جیل میں جاکر بالکل تبدیل ہوجاتے ہیں اور دین کی تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں جبکہ جیل میں کسی قسم کی زور زبردستی نہیں ہوتی ۔ کسی پر بھی اس طرح کی سختی یا نرمی نہیں برتی جاتی جس طرح ہمارے ملکوں میں ہوتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے 25 سالوں میں تقریبا 20ہزار افراد یوکے اور یورپ میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ پاکستانی و کشمیری مسلمانوں کا جینا اور مرنا اب یہاں ہی کاہوکر رہ گیا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی سفیر بھی ہماری یہی نئی نسل ہے جو والدین کی مادری زبانوں کلچر سے تھوڑی آشنا بھی ہے۔ پاکستان سے آنیوالے مذہبی اور روحانی قافلوں نے بھی یہاں اپنے اپنے کیمپ قائم کرلئے ہیں جو اپنے اپنے مسلک اور اپنے اپنے عقیدے اور جماعت کا پرچار کر رہے ہیں یہ ایک طرح کی مسلمانوں میں تقسیم اور بگاڑ کا سبب ہے۔ آج کی نوجوان نسل انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جنریشن ہے ہر مسئلے پر قرآن و حدیث کی رو سے ثبوت مانگتی ہے وہ بھی انگریزی زبان میں لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاکستان اور آزاد کشمیر سے آنیوالے علمائے کرام اردو میں خطاب کررہے ہوتے ہیں جو نوجوان نسل زیادہ نہیں سمجھ سکتی اسی لیے پرانی پیڑی اور نئی نسل کے درمیان جنریشن گیپ بڑھ رہا ہے۔ والدین کسی اور مسجد میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں اور نوجوان کسی اور مسجد میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں جہاں عربی اور انگریزی بولی جاتی ہے اور جمعہ کے خطبے کو کرنٹ افیئرز سے بھی جوڑا جاتا ہے اسی طرح ایک گھر میں رہتے ہوئے والدین اور اولادوں کی دو مختلف دنوں میں عیدیں ہوتی ہیں آپ کا عقیدہ درست بھلے کیوں نہ ہو جب آپ اس زبان میں بیان نہیں کرسکتے جو اس ملک کی زبان ہے تو پھر الزام آپ ہی کو جائے گا اس سال بھی مسلمانوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کرکے دو مختلف دنوں میں روزہ رکھا عید بھی الگ الگ ہوگی علمائے کرام نے ڈیڑھ ڈیڑھ انچ کی مسجدیں بنا رکھی ہیں لیکن کب تک ؟ پاکستانی اور کشمیریوں کے زیر انتظام مساجد میں ایک بڑا مسئلہ مساجد کمیٹیوں میں نوجوانوں کو شامل نہ کرنے کا بھی اگر نوجوانوں کو مساجد کا انتظام و انصرام سنبھالنے دیا جائے تو مستقبل کےلئے اچھا ہے مسلمانوں کے قائم کردہ یہاں رفاعی ادارے فنڈ ریزنگ کیلئے تمام حربے استعمال کرتے ہیں سب ٹی وی چینلز افطاری سے لے کر سحری تک لائیو فنڈ ریزنگ کرتے ہیں نجانے کتنے ملین پونڈز اور یورو اکٹھے ہوتے ہیں۔ اللہ کے نام پر دینے والوں کی چیریٹی عطیات تو اللہ قبول کرلیتا ہے لیکن ان چیریٹی اداروں پر اعتراضات بھی اکثر ہوتے ہیں کبھی کبھی سوچتا ہوں جتنا رمضان میں غریبوں یتیموں کے نام پر پیسہ اکٹھا ہوتا ہے اگر سب غریبوں، یتیموں، ناداروں اور مسکینوں پر خرچ ہو تو مسلمان ممالک میں ایک بھی غریب نہ رہے۔برطانوی مسلمانوں کو اپنی نوجوان نسل کو باہم اکٹھا کرنے کی ترکیب سوچناہوگئی اور باہم فروعی اختلافات بھولنے ہونگے تاکہ مسلمانوں کی آئندہ نسلیں آگئے بڑھ سکیں اور آپس میں ہم آہنگی اور اتحاد و اتفاق کو فروغ دیا جاسکے۔یہاں بھی فرقہ بندی ہے لیکن لڑائی کوئی نہیں کر سکتا چونکہ قانون سخت ہیں اور زیادتی کرنے والا ججوں کی سزا سے بچ نہیں سکتا یہاں مسلمانوں کےلئے مسائل ہیں اسلام و فوبیا ہے نسلی تعصب بھی ہے لیکن قانون سب کے یکساں ہے مسلمانوں نے خود مل جل حالات بہتر کرنے ہیں آخر میں آئیے دعا کریں ان تمام مسلمانوں خاص کر پاکستانیوں کےلئے جنہوں نے سخت محنت مزدوری کرکے اس ملک میں مساجد تعمیر کیں جس کی وجہ سے اسلام کا احیا آج ممکن ہوا اور مسلمان شاہی مہمان نوازی میں افطاری کے قابل ہوئے۔اللہ حامی و ناصر
کالم
"برطانیہ میں ماہ رمضان اور مسلمان”
- by web desk
- مارچ 5, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 235 Views
- 7 مہینے ago