کالم

بنگلہ دیش میں بھارت کی زور پکڑتی پاکستان مخالف مہم

بھارت اولین دن سے پاکستان کے خلاف کام کر رہا ہے،اس پہ اب کوئی ٹھوس دلائل دینے کی ضرورت بھی نہیں کیوںکہ بھارت پاکستان کے خلاف وہ کچھ کر چکا ہے کہ دنیا جانتی ہے،اس کی یہ حرکتیںقیام پاکستان سے جاری ہیں۔ پاکستان کو نت نئے مسائل میں الجھانے میں مصروف بھارت نے اب اپنی سازشوں کا دائرہ کار دیگر ممالک تک بھی پھیلا چکا ہے۔ اس نے پاکستان کے وقار کو زک پہنچانے کےلئے زہریلی پروپیگنڈا مہم جاری کر رکھی ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعے انتہائی بھونڈے میںیورپ اور مغربی ممال میں زہر پھیلا رہا ہے۔دو سال قبل یورپی ممالک نے انکشاف کرکے پوری دنیا کو بھارت کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا بھانڈا پھوڑا تھا۔یہ بھارت کے حکمرانوں کےلئے شرمندگی کا مقام تھا کہ وہ اس قدر چھوٹے انسان ہیں کہ جھوٹ اور تعصب کا سہارا لے کر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔تقسیم پاکستان کی سازش سے لے کر دہشت گردی تک کیا کچھ نہیں ہو رہا ہے۔بنگلہ دیش کا قیام بھارت کے پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینے سے ہی ممکن ہوا تھا ۔بھارت تقسیم کے صدمے سے جلا بھنا بیٹھا تھا، اسے جب موقع ملا تواس نے بنگال میں جڑیں پختہ کر کے اپنا مکروہ کھیل کھیلااور پاکستان توڑنے کی کوششیں تیز کر دیں ۔ ہندوستان نے یک اسلامی ریاست کے تصور کے خلاف کام کیا، مذہبی اقدار کو مجروح کیا اور نسلی پرستی کو فروغ دیا۔ بنگالی زبان اور ثقافت سے محبت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، جس سے شناخت کا بحران پیدا ہوا کیونکہ مغربی بنگال نو تشکیل شدہ بنگلہ دیش سے باہر رہا۔ اس ہیرا پھیری کے نشانات بدستور دکھائی دیتے ہیں، لوگوں میں اب بھی عدم اطمینان کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔آج جب بنگلہ دیش میں ایک سیاسی جماعت آمریت اور انتخابی دھاندلی کے ذریعے اپنی گرفت مضبوط کرچکی ہے، اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ یہ جمہوری کی اقدار کو پامال کر رہی ہے۔ بنگلہ دیش کو نوآبادیاتی بنانے کےلئے بھارت کے ساتھ ملی بھگت کے الزامات سے عوام میں غصہ بھڑک رہا ہے۔ بھارت کی دوستانہ بنگلہ دیش کی خواہش، پاکستان مخالف لوگوں کی اسلامی ثقافت اور بھائی چارے سے ہم آہنگ ہونے کے فطری رجحان سے متصادم ہے۔حسینہ حکومت کی بھارت نواز پالیسیوں پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تو وہ بے جا نہیں ہیں۔ خاص طور پر جب پڑوسی ملک بھارت میںمسلمانوں کو ہندو ہجومی جتھوں کے ہاتھوں بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بنگلہ دیش کی اپوزیشن کا یہ الزام بھی درست ہے کہ ہندوستان بنگلہ دیش کا کبھی سچا دوست نہیں رہا،وہ اس کے سیاسی ڈھانچے میں مداخلت اور انتخابات میں ہیرا پھیری کرتا ہے۔ بی این پی جس کی جڑیں اسلامائزیشن میںہیں اور خارجہ پالیسی میں وہ ہندوستان سے دور ہے، وہ بنگلہ دیش پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے پر ہندوستان کی مذمت کرتی ہے۔ اپوزیشن پارٹی پر دہشت گردی کے الزامات انڈیا آو¿ٹ تحریک کو ہوا دیتے ہیںکہ بھارت بنگلہ دیش کا دوست نہیں ہے، ایسے نعرے پورے سوشل میڈیا پر گونجتے ہیں، جو بھارت مخالف جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔اس میں دو رائے نہیں کہ حسینہ حکومت کے فیصلوں سے اختلاف کرنے پر غدار قرار دی جانے والی اپوزیشن عوام کے تحفظات کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہے۔ ریاست مخالف سرگرمیوں کے الزام پر اپوزیشن لیڈر طارق الرحمان ان دنوں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔وہ غیر ملکی مداخلت کیخلاف مزاحمت کی علامت بن جاتا ہے۔ طارق رحمان بنگلہ دیش کی دو اہم سیاسی خاندانوں میںسے ایک کے سیاسی وارث ہیں ۔ دوسرے سیاسی خاندان کی قیادت موجودہ وزیراعظم حسنہ واجد کر رہی ہیں جس نے 2018 میں طارق رحمان کی والدہ خالدہ ضیا کو جیل میں ڈالنے کے بعد سے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کو نشانہ پر رکھا ہوا ہے ۔ طارق رحمان کی جماعت نے گزشہ سال وزیراعظم حسینہ واجد سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے مہینہ بھر احتجاجی مہم چلائی تھی جس کے دوران11افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ ہزاروں بی این پی کے کارکنان گرفتار ہوئے تھے ۔طارق رحمان نے عالمی ادارے کےساتھ اپنے پہلے انٹرویو میں کہا کہ یہ مناسب نہیں کہ ان کی جماعت ایک ایسے انتخاب میں حصہ لے جس کے نتائج پہلے سے طے ہیں۔لندن سے اے ایف پی کو ای میل انٹرویو میں طارق رحمان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش ایک مرتبہ پھر جعلی الیکشن میں جا رہا ہے۔حسینہ واجد کی زیرنگرانی انتخابات میں حصہ لینا بنگلہ دیشی عوام کی خواہشات کے خلاف ہوگا اور یہ ان لوگوں کی قربانیوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہوگا جو جمہوریت کےلئے لڑے اور جانیں قربان کیں ۔ اس سب کچھ کے پیچھے بھارتی سازش کے سوا کچھ نہیں،بھارت کی پاکستان دشمنی کی اصل وجہ پاکستان کا کشمیریوں کی حمایت جاری رکھنا ہے۔پاکستان اگر کشمیریوں کی حق خود اختیاری کی بات کرتا ہے تو یہ کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل میں منظورکی گئیں قراردادوں کے عین مطابق ہے جبکہ بھارت کشمیر سے متعلق قراردادوں کا منحرف ہے۔بھارت کی پاکستان مخالف مہم جوئی کا اصل مقصد پاکستان کو کشمیر کے مسئلے سے دست کش کرنا ہے جو کہ ممکن ہی نہیں۔بھارت پاکستان پر دہشت گردی من گھڑت الزامات لگا کر بھی دنیا کے سامنے رسوائی کا شکار ہے۔ حالیہ بنگلہ دیشی انتخابات میں حسینہ واجد کی کھل کر مدد کے پیچھے بھی مودی کا بغض ہی کار فرما دکھائی دیتا ہے۔ دہلی سرکار نے بنگلہ دیش میں پاکستان مخالف پراپیگنڈے کی ایک نئی مہم شروع کی، ماضی میں بھی یہی حربہ استعمال کیا گیا جیسے پچھلے الیکن میں کیا گیا۔تب اس حوالے سے مکتی جدھا منچھا نامی ایک بھارتی تنظیم کا انکشاف ہواتھا جو بنگلہ دیش میں پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے استعمال کی گئی۔ مودی سرکار بنگلہ دیشی عوام میں پاکستان کیلئے موجود قربت سے خوفزدہ رہتی ہے اور وہ تمام اقدامات کرنے پہ تلی رہتی ہے جس سے اس قربت کو ختم کیا جا سکے ۔ یہ بات ڈھکی چھپی تو ہے نہیں 5اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370کے خاتمہ پر نریندر مودی کیخلاف سب سے بڑا احتجاج بنگلہ دیش میں ہوا تھا۔ بہرحال بنگلہ دیش کو اپنی آزاد خارجہ پالیسی برقرار رکھنی چاہئے، اسے ہندوستانی اثر و رسوخ کے جال سے نکلنا ہو گا ۔ ادھرہندوستان کو بھی سوچنا ہو گا کہ وہ کب تک اپنے چھوٹے پڑوسیوں مالدیپ یا بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات میں مداخلت جاری رکھے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے