بھارتی اپوزیشن رہنماؤں نے وزیراعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت عالمی سطح پر تنہائی اور کمزوری کا شکار ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق مودی کی سفارتکاری ذاتی تعلقات، تصویری نمائش اور دکھاوے تک محدود رہی ہے، جس کا نقصان براہِ راست عوام اور ملک کے اسٹریٹجک مفادات کو ہو رہا ہے۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے سوال اٹھایا کہ”ہاؤڈی مودی اور نمستے ٹرمپ جیسی مہمات سے بھارت نے کیا حاصل کیا؟” ایچ ون بی ویزا پر پابندیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکا کو بھارت کی کوئی پرواہ نہیں ۔ کانگریس رہنما اروند کیجریوال نے مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: "کچھ تو کریں۔ آخر 140 کروڑ عوام کا وزیر اعظم اتنا بے بس کیوں ہے؟ "ملیکارجن کھرگے نے انکشاف کیا کہ ایچ ون بی ویزا رکھنے والے متاثرین میں 70 فیصد ہندوستانی ہیںجبکہ 50 فیصد ٹیرف سے 10 شعبوں میں 21 ہزار 700 ارب روپے کے نقصان کا خدشہ ہے۔ چابہار بندرگاہ سے استثنیٰ ختم ہونے کے باعث بھی بھارت کو اسٹریٹجک نقصان ہوا ہے۔اسی طرح کانگریس رہنما گورو گگوئی نے کہا کہ امریکا کے حالیہ فیصلے سے بھارت کے مستقبل کو نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن مودی کی خاموشی اور دکھاوے کی سیاست بھارتی شہریوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ کپل سیبال نے طنزیہ انداز میں کہا کہ "ایچ ون بی ویزا پر پابندی کے بعد ذاتی تعلق، گلے ملنا اور ‘اب کی بار ٹرمپ سرکار’ کہاں گیا؟ "اپوزیشن رہنماؤں نے الزام لگایا کہ مودی حکومت کی خارجہ پالیسی دکھاوے، جھوٹ اور تکبر پر مبنی ہے جو اب زمین بوس ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتہا پسند مودی اپنی سیاسی بقا کیلئے بھارت سمیت پورے خطے کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔امریکی جریدے” نیو یارک ٹائمز” نے اپنی ایک رپورٹ میں کہاہے کہ امریکہ اورچین کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے بعد بھارت عالمی تنہائی کا شکارہوگیا ہے۔ 2014میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے صدر شی جن پنگ کا ریڈ کارپٹ استقبال کیا لیکن اس دوران چینی فوجی بھارتی سرحد پر ان کے فوجیوں کے ساتھ تصادم میں الجھ گئے جس سے نہ صرف نریندر مودی کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑابلکہ انہیں بھارتی فوج کو سخت سردی والے علاقے میں جنگی حالت میں تیار رکھنا پڑا جس سے بھارت کی معیشت بھی متاثر ہوئی ۔سالوں بعد بھارتی وزیراعظم نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی دکھائی اور اپنی سیاسی ساکھ مزید دا ئوپر لگا کر اس تعلق کو تیزی سے بدلنے کی کوشش کی۔ نریندر مودی نے اپنی پہلی مدتِ حکومت میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اتنی دوستی بڑھائی کہ پروٹوکول توڑ کر ہیوسٹن میں ایک بھرے اسٹیڈیم میں ان کی انتخابی مہم میں شرکت کی۔سابق بائیڈن انتظامیہ نے بھی تعلقات کو وسعت دینا جاری رکھا کیونکہ بھارت کو چین کیخلاف ایک مضبوط اتحادی سمجھا جاتا ہے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے حال ہی میں50فیصد کا بھاری ٹیرف لگانے کے اقدام نے نریندر مودی کو ذلت سے دوچار کر دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو روسی تیل کی خریداری کا حوالہ دیتے ہوئے 50فیصد کا بھاری ٹیرف لگا دیا اور بھارتی معیشت کو مردہ قرار دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ رواں سال کے اوائل میں پاک ۔ بھارت تنازعہ حل کرنیکی کوشش کے دوران پاکستانی قیادت کو برابری کی حیثیت دیکر بھارت کو پہلے ہی ناراض کرچکے تھے ۔ اس سب نے بھارت کو ایک ایسی صورتحال سے دوچار کر دیا جہاں اسے اپنی طاقت کو دیکھنا پڑ رہا ہے۔ ایک وسیع اور بڑھتی ہوئی معیشت ہونے کے باوجود مودی نے رواں ہفتے اعتراف کیا کہ تجارتی تنازع پر انہیں سیاسی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔بھارت بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہے اور مودی گزشتہ 7برسوں میں پہلی بار رواں ماہ کے آخر میں چین کا دورہ کرنے والے ہیں مگر تعلقات اب بھی سرحدی جھڑپ اور حالیہ دنوں میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے دوران چین کی جانب سے پاکستان کی حمایت کی وجہ سے تنائو کا شکار ہیں۔ دوسری طرف مودی نے کہا کہ میں رواں سال کے آخر میں روسی صدر پیوٹن کی بھارت میں میزبانی کرنے کا منتظر ہوں ۔ مگر اس دوڑ دھوپ اور ضد سے ہٹ کر بھارت کی یہ خواہش کہ وہ ایک معاشی اور سفارتی طاقت کے طور پر اپنے عروج کو مستحکم کرے ، غیر یقینی صورتحال سے ماند پڑتی دکھائی دیتی ہے ۔ بھارتی حکام اور ماہرین میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ملک کو اپنی طویل آزمودہ اسٹریٹجک خود مختاری کی پالیسی پر واپس جانا ہوگا۔بیجنگ اور واشنگٹن میں بھارت کی سابق سفیر نیروپما را نے کہا کہ ٹرمپ کے سخت اقدامات نے انتہائی اہم شراکت داری کی اسٹریٹجک منطق کو تہ و بالا کر دیا ہے جو 2 دہائیوں سے زیادہ عرصے میں بڑی محنت سے پروان چڑھائی گئی تھی۔ نئی دہلی کو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے انتہائی عملی اسٹریٹجک ایڈجسٹمنٹس کرنا ہوں گی۔رواں ہفتے ٹرمپ کے بھاری ٹیرف کے اعلان کے بعد مودی نے ایک جلسے سے خطاب میں کہا تھا کہ بھارت کبھی اپنے کسانوں، ماہی گیروں کے مفاد پر سمجھوتہ نہیں کرے گا، مجھے معلوم ہے کہ مجھے ذاتی طور پر بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور میں اس کیلئے تیار ہوں۔ امریکی جریدے کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ درحقیقت یہ تعلقات اس سے پہلے ہی بگڑنا شروع ہو گئے تھے، جب ٹرمپ نے روسی تیل پر توجہ مرکوز کی، حکام اور تجزیہ کاروں کے مطابق تعلقات کی خرابی کا تعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ذاتی ناراضگی سے ہے ۔رواں برس مئی میں پاک بھارت کشیدگی جب سرحد پار جھڑپوں میں بدلی تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے دونوں فریقوں پر دبائو ڈال کر جنگ بندی کرائی ۔ جہاں پاکستانی حکام نے اس کا خیر مقدم کی اور ٹرمپ کا نام نوبل امن انعام کیلئے تجویز کیا ، وہیں بھارتی حکام نے امریکی صدر کے دعوے کی تردید کر دی اور ٹرمپ کے موقف کے خلاف موقف اپنایا، جسے وہ درجنوں بار دہرا چکے ہیں۔ بھارتی حکام نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مودی ایک طاقتور لیڈر ہیں جنہوں نے اپنی عسکری طاقت سے پاکستان کو جنگ بندی کی درخواست کرنے پر مجبور کیا تھا ۔ آزادی کا مطلب بے لگام ہو جانا نہیں ہے۔ آزادی سے آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اب یہ ضرور ہو گیا ہے کہ آپ ایک منظم و مضبوط قوم کی طرح کام کریں۔ (ڈھاکہ یونیورسٹی ۔ 20 مارچ 1948)