کالم

بھارتی مسلمانوں کا معاشی قتل

بھارت میں ہندو انتہا پسند دائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کےخلاف پچھلے کچھ سالوں سے مہم چل رہی ہے جسکی باقاعدہ سرپرستی مبینہ طور پر حکمران جماعت بھارتیہ جنتاپارٹی کررہی ہے بی بی سی نے حالیہ دنوں میں ایک ڈاکومنٹری فلم پیش کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح انتہا پسند ہندوﺅں کی جانب سے مسلمان کے خلاف متعصبانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے اور مہم چلائی جارہی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہندو کاروبار نہ کریں دکانیں اور مکان کرائے پر بالکل نہ دیں اور مسلمانوں سے سودا سلف بھی نہ خریدیں جبکہ ہندوں اور مسلمانوں کی دکانوں کے باہر انکے ناموں کے سائن بورڈ آوازیں کرنے کی بھی مہم چل رہی ہے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ یہ دکان مسلمان کی یے یا ہندو کی۔ پچھلے کچھ سالوں سے سوشل میڈیا پر مسلسل اس کی تشہیر کی جا رہی ہے ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں یہ معاشی تفریق کا رجحان بڑھ رہا ہے جس کا مقصد مسلم کاروباری افراد کو غربت کی جانب دھکیلنا ہے۔ دکانوں پر مالک کا نام ظاہر کرنے کی پالیسی اور مسلمانوں کےخلاف صفائی سے متعلق بے بنیاد الزامات نے ان کے کاروبار کو شدید نقصان پہنچایا ہے اس امتیازی رویے کی وجہ سے مسلمانوں کے کاروبار گاہکوں سے محروم ہو رہے ہیں اور کئی افراد اپنی دکانیں ریسٹورنٹس اور زبح خانے بند کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں پر مظالم کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی ہے لیکن اس میں سرکاری سطح پر نریندرمودی کے کے دور حکومت میں اضافہ ہوا ہے جس کی سرپرستی حکومتی لیول پر کی جارہی ہے۔ نریندر مودی کے ان شرمناک اقدامات کو مسلمانوں ممالک کے سربراہان نے آج تک کسی باقاعدہ پلیٹ فارم پر نہیں اٹھایا جو ایک لمحہ فکریہ ہے بلکہ بے شرمی کا یہ عالم یے کہ نریندرمودی جب مسلمان ممالک کا دورہ کرتا ہے تو سرخ کارپٹ بچھایا جاتا ہے آج عرب ممالک سب سے زیادہ سرمایہ کاری بھارت میں کررہے ہیں او آئی سی، عرب لیگ اور اقوام متحدہ کے کسی پلیٹ فارم پر 57مسلمان ممالک میں سے کوئی آواز آٹھانے سے قاصر ہے کہ بھارت میں تقریبا 20 کروڑ مسلمانوں کا جینا محال کردیا گیا ہے جو ملک کی کل آبادی کا 14.28 فیصد ہے اس وقت یہ پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ مسلمان سب سے زیادہ بچے پیدا کررہے ہیں اور آبادی میں اگر اسی طرح اضافہ جاری رہا تو 2050 تک مسلمانوں کی آبادی 35 کروڑ تک ہوسکتی ہے جس سے اکثریتی ہندو بھارت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اسی لئے بھارتی مسلمانوں کے خلاف مہم جوئی کا دائرہ کار وسیع کیا گیا ہے جو کئی سطحوں پر چل رہی ہے جس میں سیاسی، سماجی، اور معاشی عوامل شامل ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی اور اس کی حامی تنظیمیں ہندو قوم پرستی کو بڑی تیزی سے فروغ دے رہی ہیں جس میں مسلمانوں کو "دوسرا” بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔بی جے پی نے شہریت ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز جیسے اقدامات کرکے مسلمانوں کے حقوق کو محدود کرنے کی کوشش ہے ۔اسی طرح کئی مواقعوں پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا جیسے دہلی فسادات 2020 گجرات 2002 اور دیگر واقعات شامل ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف میڈیا اور سوشل میڈیا پر مسلسل منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، جس میں انہیں ملک دشمن، دہشتگرد یا آبادی بڑھانے کی سازش کرنےوالے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔لوجہاد کا الزام: مسلمان مردوں پر ہندو خواتین کو زبردستی مسلمان بنانے کے جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں، جس کی بنیاد پر کئی ریاستوں نے سخت قوانین بنا دیے ہیں۔سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کےلئے مواقع محدود کیے جا رہے ہیں، جسکا مقصد مسلمانوں کو مزید پسماندہ کرنا ہے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر کئی مسلمانوں پر تشدد کر کر کے قتل کر دیا گیا ہے جن میں اخلاق، پہلو خان، اور دیگر کئی افراد شامل ہیں۔اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں: ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور دیگر ادارے بھارت میں مسلمانوں کےساتھ ہونےوالے مظالم پر آواز اٹھا چکے ہیں، مگر بھارتی حکومت اکثر انہیں داخلی معاملات میں مداخلت کہہ کر مسترد کر دیتی ہے۔ کئی اسلامی ممالک بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی وجہ سے کھل کر مذمت کرنے سے گریز کرتے ہیں جبکہ پاکستان کی موجودہ حکومت میں شامل جماعتیں بھی نریندرمودی کےخلاف اور مسلمانوں کے حق میں کسی قسم کی آواز اٹھانے سے گریزاں ہیں ۔بھارتی مسلمانوں کو ایک منظم مہم کے ذریعے حاشیے پر دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ صرف بھارت کا نہیں بلکہ عالمی انسانی حقوق کا بھی ہے، جس پر عالمی برادری کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگااور مسلمانوں ملکوں کو اس پر آواز آٹھانی چاہئے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے