کالم

بھارتی کسانوں کا مطالبات کے حق میں احتجاج

بھارت میں کسانوں کے جاری احتجاج کے دوران 100 سے زائد مظاہرین پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے دوران شدید زخمی ہوگئے جنہیں مختلف ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے۔ احتجاج کے دوران چھروں سے مارے گئے تین کسان مبینہ طور پر زخمی ہونے کی وجہ سے اپنی بینائی کھو بیٹھے ہیں کیونکہ ہریانہ پولیس نے کسانوں کو دہلی کی جانب مارچ کو روکنے کےلئے پنجاب ہریانہ سرحد پر آنسو گیس کے گولے داغے اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔کسان تمام فصلوں کی کم سے کم امدادی قیمت کی قانونی ضمانت ، اپنے قرضوں کی معافی اور 2021کے احتجاج کے دوران ان پر قائم کئے گئے مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔بھارت میں متنازع زرعی اصلاحات کے خلاف کامیابی کے بعد ملک گیر سطح پر کسانوں نے ’دلی چلو‘ نعرے کے تحت پنجاب کے مختلف علاقوں سے دہلی کی طرف مارچ شروع کیا تھا لیکن انھیں ہریانہ کے باڈرز پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ، لاٹھی چارج اور سڑکوں پر بڑے پیمانے پر کھڑی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ جب کسانوں نے آگے بڑھنے کی غرض سے رکاوٹیں ہٹانے کےلئے ٹریکٹرز کا استعمال کیا تو پولیس کی جانب سے ا±ن پر ڈرونز کی مدد سے آنسو گیس کے گولے داغے گئے اور لاٹھی چارج کیا گیا۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ کے سینئر رہنما محمد یوسف تاریگامی نے جموں شہر میں بھارتی کسانوں کی حمایت میں ایک احتجاجی مظاہرے کی قیادت کی جبکہ بھارتی پولیس نے کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کےلئے سرینگر میں احتجاج کرنےوالے 50 سے زائد تاجروں اور کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ میوکت کسان مورچہ کی طرف سے بھارت بھر میں ہڑتال کی اپیل پرسرینگر میں تاجروں اور کارکنوں کی بڑی تعداد نے احتجاج کیا۔ بھارتی کسان اپنے مختلف مطالبات کے حق میں ،کسان کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)پر قانونی ضمانت، سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد، کسانوں کےلئے پنشن، کسانوں کے قرضوں کی معافی، پولیس مقدمات واپس لینے اور لکھیم پور کھیری کے متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کی وکالت کر رہے ہیں۔بھارت کی سب سے بڑی کسان تنظیم سمیوکت کسان مورچہ نے ملک بھر کے کاشت کاروں سے احتجاج میں شامل کسانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے اپنے کھیتوں میں جانے سے گریز کرنے اور تاجروں اور ٹرانسپورٹرز سے بھی ہڑتال میں شامل ہونے کی اپیل کی تھی۔کسانوں کے ایک رہنما، جگجیت سنگھ دلیوال کا کہنا ہے کہ حکومتی نمائندوں سے مذاکرات کے باوجود ان کا احتجاج پرامن طور پر جاری رہے گا۔ انہوں نے خبردار کیاکہ اگر حکومت کے ساتھ اجلاس میں کوئی مثبت پیشرفت نہ ہوئی تو وہ نئی دلی کی طرف مارچ جاری رکھنے پر مجبور ہوں گے۔ کسانوں کی اس نئی احتجاجی تحریک کا آغاز تین سال کے وقفے کے بعد ہوا ہے۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت فصلوں کی قیمتوں کا کم از کم تعین کرے تاکہ مارکیٹ میں انہیں سوداگروں کے استحصال سے نجات مل سکے ۔ تین سال کسانوں کے ملک گیر احتجاج نے غیر معمولی طوالت اختیار کر لیا تھی اور ایک سال تک احتجاج چلتا رہا تھا۔ بعد ازاں حکومت نے کسانوں کے سامنے سرنڈر کر دیا اور ان کے مطالبات مان لیے۔ اب کی بار کسانوں کو مطالبہ فصلوں کی اچھی قیمت دینے کےلئے ہے ۔ مودی حکومت کا اس سے پہلے جواب یہ تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے اور حکومت کو اس فیصلے سے باہر کی دنیا میں مشکلات ہوں گی۔ لیکن کسانوں کا مطالبہ اب انہیں ایسے وقت پر باہر لایا ہے جب ملک میں عام انتخابات قریب آ رہے ہیں ۔ اگر حکومت نے کسانوں کا مطالبہ نہ مانا تو مودی سرکار کو ملک کے اندر مشکلات اور انتخابات میں نقسان ہو سکتا ہے ۔ ہندوستانی کسانوں کی تحریک 2020ءمیں ہندوستانی پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ تین زرعی بلوں کےخلاف بھارتی کسانوں کا احتجاج ہے، جسے مختلف کسانوں کے گروہوں نے کسان مخالف قوانین کے طور پر بیان کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی ملک بھر میں 500 سے زیادہ کسان تنظیم احتجاج کر رہی ہیں۔جون 2020 کے وسط میں، حکومت ہند نے زرعی مصنوعات، ان کی فروخت، ذخیرہ اندوزی، زرعی مارکیٹنگ اور زرعی اصلاحات سے متعلق معاہدے سے متعلق تین فارم آرڈیننس نافذ کیے۔ ایک بل 15 ستمبر 2020 کو لوک سبھا اور دو دوسرے نے 18 ستمبر 2020 کو منظور کیا تھا۔ بعد ازاں، 20 ستمبر 2020 کو، راجیہ سبھا نے دو بل اور تیسرا 22 ستمبر کو بھی منظور کر لیا۔ ہندوستان کے صدر نے بھی 28 ستمبر 2020 کو ان بلوں پر دستخط کیے اور اپنی منظوری دی، اس طرح انھیں قانون میں تبدیل کر دیا گیا۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ تین نئے زرعی قوانین منسوخ کریں۔فارم قوانین کو منسوخ کرنے کےلئے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس طلب کیا جائے۔کم سے کم سپورٹ پرائس بنائیں اور فصلوں کی ریاستی خریداری کو قانونی حق بنائیں۔ یقین دہانی کرو کہ روایتی خریداری کا نظام جاری رہے گا۔سوامیاتھن کمیٹی کی رپورٹ پر عملدرآمد کرو۔زرعی استعمال کےلئے ڈیزل کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کریں۔ تنکے جلانے پر جرمانے اور جرمانے کا خاتمہ ۔ پنجاب میں چاول کے بھس جلانے کے الزام میں گرفتار کسانوں کی رہائی۔ان فارموں کے بلوں کے میڈیا کوریج کے بعد، ان اصلاحات کےخلاف پورے ہندوستان، خاص طور پر پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش میں احتجاج شروع ہوا۔ اگرچہ مرکز چاہتا ہے کہ کسان احتجاج کےلئے دہلی کی سرحد سے دور براو¿ری گراو¿نڈ کی طرف چلے جائیں، کسان دہلی بارڈر پر ہی رہنا پسند کرتے ہیں اور براری کی بجائے جنتر منتر کی طرف بڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے