کالم

بھارت جمہوری نہیں بلکہ استعماری ریاست ہے

بھارت جمہوری نہیں بلکہ استعماری ریاست ہے۔ جمہوریت کے حوالے سے تحقیقاتی ادارے V-Demنے اپنی رپورٹ میں بھارت کو دنیا کے 179 کی فہرست میں نائجیر اور آئیوری کوسٹ کے درمیان رکھا ہے۔ ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں جمہوریت 1975 کی سطح گر گئی ہے جب ملک میں ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی۔2018 کے انتخابات کے بعد ملک جمہوری مطلق العنانیت کا شکار ہوگیا ہے یہ صورتحال 2023 تک جاری رہی ہے۔ بھارت اب جمہوری ملک کہلانے کا قابل نہیں رہا ہے۔ دنیا کی 35 فیصد آبادی جمہوری مطلق العنانیت کا شکار ہے جس میں نصف حصہ بھارت میں پایا جاتا ہے۔بھارت میں برسراقتدار ہندو انتہاپسند جماعت فسادات اور دہشت گردی سے متعلق قوانین کو اپنے مخالفین کو سرکوب کرنے کے لئے استعمال کررہی ہے۔ بی جے پی نے 2019 میں ملک کی سیکولر تشخص کے ضامن قانون کو کمزور کردیا ہے۔V-Dem نے بھارت کو حالیہ سالوں کے دوران جمہوری مطلق العنانیت میں سب سے زیادہ مبتلا ہونے والے دس ممالک میں سے قرار دیا ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر والکر ٹرک نے بھی بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے شہری آزادی کو محدود کرنے کے واقعات کی طر ف اشارہ کیا ہے جس میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی ہراسانی، حکومت مخالف افراد کے ساتھ نامناسب سلوک اور اقلیتوں مخصوصا مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک شامل ہے۔انہوں نے رواں سال ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آزاد اور شفاف ہونے پر سوال اٹھایا ہے۔ بھارت میں انسانی حقوق مخصوص اقلیتوں کے ساتھ زیادتی اور امتیازی سلوک کے بارے میں 30 سے زائد بین الاقوامی قانونی ماہرین نے بھارتی صدر مملکت کو خط لکھ کر اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے۔ خط میں مسلمانوں اور جنوبی بھارت کے جزائر پر آباد قبائل کے ساتھ زیادتی کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ بھارت میں حزب اختلاف اور سیکولر جماعتوں نے بھی بی جے پی پر انتہاپسندانہ پالیسی اختیار کرنے اور اقلیتوں پر دباو بڑھانے کا الزام لگایا ہے۔ ان جماعتوں نے حکمران پارٹی پر الزام لگایا ہے کہ بی جے پی ملک کے آئین سے سیکولر کا لفظ ختم کرکے ہندو ریاست میں بدلنا چاہتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے مطابق حکمران پارٹی مسلمانوں کی مساجد کو منہدم کرکے ہندو عبادت گاہیں تعمیر کرنا چاہتی ہے جبکہ کشمیر میں مسلمانوں کی خومختاری کا خاتمہ، اسلامی جماعتوں کی سرگرمیوں پر پابندی اور الیکشن کمیشن جیسے خودمختار ادارے کو کمزور بنانا بھی حکمران جماعت کی ترجیحات میں شامل ہیں جن پر بھارتی اپوزیشن جماعتیں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو شدید اعتراض ہے۔ بھارتی فورسز نے 1947 سے اب تک تقریباً چھ لاکھ کے لگ بھگ کشمیری شہید جبکہ ہزاروں لا پتہ کر دئے ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کو دبانے کےلئے تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے۔ جنوری 1989 سے اب تک 96 ہزار 317 کشمیریوں کو شہید کیاگیا جن میں سے7341 کو دوران حراست اور جعلی مقابلوں میں شہید کیاگیا۔ خواتین اور بچوں سمیت ایک لاکھ 71ہزار 612 کشمیریوں کو گرفتار کیا۔ جنوری 2001 سے اب تک فوجیوں اور پیرا ملٹری اہلکاروں کے ہاتھوں 684 خواتین شہید ہو چکی ہیں ۔ کئی اہم رہنما نظر بند اور قید ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی این جی اوز کے مطابق بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں تشدد کو ایک پالیسی کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت فوج تشدد کے مختلف طریقوں کو استعمال کرتی ہے جس میں جنسی تشدد جیسا کہ عصمت دری اور زیادتی، واٹر بورڈنگ، جسم کے اعضاءکو گرم اشیاءسے جلانا، قید تنہائی اور جنسی اعضاء کو بجلی کا جھٹکا لگانا شامل ہیں۔ ایک جامع رپورٹ "Torture: Indian State’s Instrument of Control in Indian Administered Jammu and Kashmir” کے مطابق تشدد کا شکار ہونے والے 70 فیصد افراد عام شہری ہیں اور 11 فیصد تشدد کے دوران یا اس کے نتیجے میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ دوسری جانب قابض مسلح افواج کو دیے گئے قانونی، سیاسی اور اخلاقی استثنیٰ کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے کسی بھی معاملے میں ایک بھی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ بھارت نے کل جماعتی حریت کانفرنس کی اعلیٰ قیادت، عالمی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق کے کارکنوں، پیشہ ور افراد اور صحافیوں سمیت تقریباً 10,000 کشمیریوں کو غیر قانونی طور پر اغوا کیا ہے۔ بھارتی ایجنسیوں نے جعلی مقدمات درج کر رکھے ہیں اور ان مقدمات کو ثابت کرنے کے لیے ابھی تک انڈین کینگرو کورٹس میں ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ محمد یاسین ملک، مسرت عالم بھٹ، شبیر احمد شاہ، نعیم احمد خان، آسیہ اندرابی اور دیگر سمیت درجنوں اعلیٰ درجے کے سیاسی رہنماو¿ں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر بھارت کی جیلوں میں بھیج دیا گیا۔ کشمیری رہنما محمد یاسین ملک کو بھارتی NIA کی طرف سے دائر کیے گئے ایک مشکوک اور سیاسی طور پر محرک مقدمے میں سزا سنانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت کی حکومت کشمیریوں کی جائز آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے عدلیہ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ 2015 میں ڈاکٹرز ود آو¿ٹ بارڈرز کی شائع کردہ ایک تحقیق کے مطابق کشمیری آبادی کا 19 فیصد پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت 1997ءمیں تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کر چکا ہے، لیکن اس نے آج تک اس معاہدے کی توثیق نہیں کی۔ تشدد کے متاثرین کی حمایت میں اقوام متحدہ کے عالمی دن کے موقع پر بھارتی قابض افواج کے مظلوم کشمیریوں پر تشدد کے ہوشربا انکشافات نے دنیا کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تشدد کے استعمال کیلئے بھارتی فوج کو اپنی حکومت کی جانب سے کھلا ہاتھ دیا گیا ہے جسے تحریک آزادی کو کچلنے کے حربے کے طور پر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے