بھارتی پنجاب کی کھنوری سرحد پر سراپا احتجاج کسانوں پر پولیس نے گولیاں اور آنسو گیس کے گولے برسائے جس کے نتیجے میں نوجوان کسان شوبھکرن سنگھ ہلاک ہوگیا اور 25 دیگر زخمی ہوگئے۔ بھارتی حکام نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ روز پولیس سے جھڑپوں کے دوران سر میں گولی لگنے سے 21 سالہ کسان کی موت ہوئی جب کہ جھڑپوں میں 12 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے جس کے بعد ’دلی چلو مارچ ‘ 2دن کیلئے معطل کردیا گیا ۔ کسان گروپوں نے کسان کی ہلاکت کا ذمہ دار ریاستی پولیس اور مرکزی حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ہلاک نوجوان شوبھ کرن سنگھ نامی کسان تھا جو کہ پنجاب کے شہر بھٹنڈہ کا رہائشی تھا ، کسان لیڈر کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس پٹیالہ کے شبھ کرن سنگھ کی موت کو ماننے سے انکارکر رہی ہے جبکہ اسپتال ذرائع نے بتایا گولی لگنےکےباعث شبھ کرن سنگھ کی موت واقع ہوئی۔ اس جوان کی موت کے بعد مرکزی حکومت اور کسان مظاہرین کے درمیان حالات مزید خراب ہوں گے۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی کسانوں کے مطالبات پر غور کرنے میں ناکامی پر مرکزی حکومت پرشدیدتنقید کی۔ضلع شھمبو اور کھنوری میں رکاوٹیں توڑنے کی ناکام کوششوں میں کئی کسان زخمی ہوئے، جس کے بعد پنجاب سے باہر بھی کسان یونینز نے احتجاج کو وسیع کرنے کی کال دے دی۔چندی گڑھ میں مرکز کی تجاویز کو مسترد کرنے کے بعد 200 سے زائد یونینز مارچ میں شامل ہوگئی ہے ، مودی سرکار نے کسان مظاہرین کے ڈر سے حواس باختہ ہوکر دہلی کی سرحدوں پر سیکیورٹی بڑھا دی ہے۔ کسانوں نے ہریانہ سرحد پر دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جس کے سبب سکیورٹی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہریانہ کے 7 اضلاع میں موبائل انٹرنیٹ سروس کی بندش میں کل تک توسیع کردی گئی ہے۔واضح رہے کہ بھارت میں کسان اپنی فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت کی ضمانت کےلئے ایک قانون وضع کا مطالبہ کررہے ہیں جس کےلئے کسانوں کا احتجاج جاری ہے۔بھارت میں فصلوں کی کم سے کم امدادی قیمت کی قانونی ضمانت کیلئے احتجاج کرنے والے کسانوں نے اپنے مطالبات کے حق میں یوم سیاہ منایا اور وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امیت شاہ اور دیگر وزرا کے پتلے جلائے۔ ہزاروں کسانوں نے گزشتہ ہفتے دلی چلو مارچ شروع کیا تھا لیکن بھارتی فورسز نے دارالحکومت سے شمال میں تقریبا 200 کلومیٹر دورمظاہرین کو روک دیا اور انہیں پیچھے دھکیلنے کے لیے واٹر کینن اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔کسان لیڈروں کی اپیل پر یوم سیاہ منایاگیا۔اعلان کئے گئے پروگرام کے مطابق 26فروری بروز پیر کو شاہراہوں پر ٹریکٹر ریلی اور 14مارچ کو دلی میں کھیت مزدوروں کی عوامی میٹنگ منعقد کی جائیگی۔ کسانوں نے قطار میں کھڑے ٹریکٹروں اور ٹرالیوں پر سیاہ جھنڈے لہرائے۔ مظاہرین،سے اظہار یکجہتی کے لیے دیگر کسانوں نے بھی اپنی پگڑیوں پر سیاہ کپڑا باندھا۔کسانوں نے احتجاج کے دوران ریاست ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کا پتلا بھی جلایااورمودی اور ریاستی حکومتوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ 26فروری کو پورے ملک میں ٹریکٹر مارچ کریں گے۔ ہریانہ کے وزیر اعلٰی منوہر لال کھٹر نے فصلوں کے لیے لیے گئے قرضوں پر 30 دستمبر 2023 کا سود معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کسان قیادت نے اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ اس نے مودی سرکار سے کہا ہے کہ وہ بھی کسانوں کے مسائل حل کرنے پر فوری توجہ دے۔ ہریانہ کی حکومت نے اپنے مطالبات کےلئے احتجاج کرنے والے کسانوں کے اثاثے ضبط کرنا شروع کردیا ہے۔ دوسری طرف انبالہ پولیس نے بھی قومی سلامتی ایکٹ کے تحت کارروائی کرتے ہوئے کسانوں کے بینک اکاو¿نٹس منجمد کرنا اور ان کے ٹریکٹرز، بھاری مشینری وغیرہ کو ضبط کرنا شروع کردیا ہے۔ایک بیان میں ریاستی حکومت نے کہا ہے کہ پہلے ہی خبردار کردیا گیا تھا کہ اگر کسانوں کے احتجاج کے دوران سرکاری املاک کونقصان پہنچے گا تو مارپیٹ اور توڑ پھوڑ میں ملوث کسانوں کے اثاثے ضبط کرلیے جائیں گے۔بعض حکام نے کہا ہے کہ اگر احتجاج کے دوران سرکاری املاک کو نقصان پہنچائے گا تو اسے قیمت تو ادا کرنا ہی پڑے گی۔پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کا ’دہلی چلو‘ مارچ 13 فروری کو شروع ہوا تھا۔ کسان قیادت دہلی میں ہے جہاں اس نے مودی سرکار سے مذاکرات کے تین ادوار مکمل کیے ہیں۔کسان قیادت نے اپنے مطالبات سے متعلق تمام نکات مرکزی حکومت کے حوالے کردیے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اب تک کوئی باضابطہ جواب نہیں دیا گیا تھا۔ مذاکرات کے دوران احتجاج روک دیا گیا تھا۔ کسان قیادت نے اب احتجاج دوبارہ شروع کرنے اور دہلی چلو مارچ جاری رکھنے کی کال دی ہے۔ڈھائی سال قبل بھی کسانوں کے احتجاج کے باعث دہلی میں خاصی ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کا ایک بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ مختلف اہم فصلوں کی امدادی قیمتِ خرید بڑھائی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ فصلوں کی بیمہ کاری کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ موسم کے ہاتھوں فصلیں تلف ہونے پر کسان کسی نہ کسی طور کام جاری رکھ سکیں۔مذاکرات کے دوران مودی حکومت نے کسانوں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ حکومت 5 سالہ معاہدے کے تحت کسانوں سے اناج خریدے گی تاہم احتجاجی کسانوں کی طرف سے کہا گیا کہ حکومتی پیشکش ’ہمارے مفاد میں نہیں۔‘کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پر اب بھی قائم ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت انھیں تمام 23 اناج ’منیمم سپورٹ پروگرام‘ کے تحت خریدنے کی ’قانونی گارنٹی‘ دے۔بھارتی کاشت کاروں نے 2021 میں بھی ایسا ہی احتجاج کیا تھا، کاشت کار یوم جمہوریہ کے موقع پر رکاوٹیں تو