کالم

بھارت میںمساجد ومزارات کی بے حرمتی

بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع برہان پور کے علاقے برونڈا میں ایک مزار پر ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد کشیدگی پائی جاتی ہے۔ جھڑپوںمیں ایک دوسرے پرپتھرا ﺅکیا گیا جس سے ایک خاتون سمیت چار افراد زخمی ہو گئے۔یہ تنازعہ مزار کو زعفرانی رنگ کیے جانے سے شروع ہوا جس پر مسلمانوں نے شکایت درج کرائی۔ نائب تحصیلدار کی نگرانی میں مقامی حکام کی طرف سے ثالثی کی کوششیں کی گئیں لیکن یہ کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئیں جس کے بعدتشدد بھڑک اٹھا۔علاقے میں سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا اور امن بحال کرانے کےلئے فلیگ مارچ کیا گیا۔برہان پور کے اے ڈی ایم سپنا انوراگ جین نے تصدیق کی کہ مزار کے آس پاس کے علاقے کومحاصرے میں لے لیا گیا ہے اور مجرموں کی شناخت کےلئے سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔مسئلے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کےلئے فریقین کے نمائندوں کو بات چیت کے لیے بلایا جائے گا۔حالیہ مہینوں میں یہ تیسرا واقعہ ہے جس میں ہندوتوا عناصر اپنے مفادات کےلئے کشیدگی کو ہوا دے رہے ہیں۔بھارت میں مسلمان دشمن ذہنیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ہندوتوا پالیسی پر عمل پیرا بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور حکومت میں مسلمانوں کو کہیں کورونا وائرس کی آڑ میں نفرت کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو کہیں غداری جیسے الزامات میں دھرلیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ’بھارت میں اسلامو فوبیا‘ کا لفظ پاکستان میں ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے۔ بھارت میں مسلمان ہمیشہ سے ہندوو¿ں کے ظلم و ستم کا شکار رہے ہیں، مگر 2014 میں مودی کے برسر اقتدار آنے سے انتہا پسند ہندوو¿ں کو شہ مل گئی اور وہ سرعام نہ صرف مسلمانوں بلکہ ان کی مذہبی رسوم، مساجد و مزارات کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔ بھارت میں مساجد کی بے حرمتی اور نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندیاں لگائی گئیں۔ مقبوضہ کشمیر میںاگست 2019 سے کشمیری جمعہ کی نماز مسجد میںنہیں پڑھ سکے۔ اتر پردیش اور ہریانہ میں برسراقتدار بی جے پی حکومت کی سرپرستی میں سَنگھ پریوار کی طرف سے مساجد کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے خلاف نماز کی ادائیگی کے مقامات پر جاری حملوں پر بھی بھارتی مسلمانوں کو شدید تشویش لاحق ہے۔ مسلمانوں کے مقدس مذہبی مقامات کی بے حرمتی کے ایک اور قابل مذمت واقعہ میں انتہاء پسند ہندو گروہوں کی جانب سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے مقامات پر گائے کا گوبر پھینکنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔عالمی برادری کی جانب سے تشویش کے اظہار کے باوجود تری پورہ میں مسلمانوں، آن کی عبادت گاہوں، گھروں اور کاروباری مقامات پر قابل مذمت حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بی جے پی جن ریاستوں میں برسراقتدار ہے، وہاں سینکڑوں افراد کو ’غیرقانونی سرگرمیاں (امتناع) ایکٹ‘ جیسے سیاہ قانون کے تحت گرفتار کیاگیا ہے جن میں نامور وکلاء اور صحافی بھی شامل ہیں یہ وہ افراد ہیں جو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے انسانی حقوق کی سنگین اور منظم انداز میں خلاف ورزیوں کیخلاف صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں۔ انتہاءپسند ’بی جے پی‘ اور اس سے منسلکہ ’بَجرنگ دَل ‘، ‘ وِشوا ہندو پریشد‘ اور ’مہاراشٹرا ناونِرمن سینا‘ جیسے جتھوں کے کارکن ریاست مہاراشٹرا میں مسلمانوں کی دکانوں، مساجد اور مزارات پر پرتشدد حملے کررہے ہیں۔ مودی کا نظریہ نسلی اور مذہبی منافرت کی مہم کے سوا کچھ نہیں۔ بھارتی وزیراعظم کے ہندوتوا اور فاشزم پر مبنی نظریات امن کیلئے خطرہ ہیں۔ بھارتی وزیراعظم کو سمجھنا چاہیے کہ بھارت میں اقلیتیں مذہبی منافرت سے تحفظ اور مذہبی آزادی کا مساوی حق رکھتی ہیں۔ نریندر مودی فاشسٹ آر ایس ایس کے تربیت یافتہ تھے جو نسلی برتری کے نظریے پر یقین رکھتے تھے اور انہوں نے مسلمانوں میں خوف پھیلا کر اپنے ووٹ بینک میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا۔ اسلامو فوبیا کا تصور ایک مشکل حقیقت رہا ہے تاہم حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اسے ایک آلہ کار کے طورپر استعمال کر رہا ہے جو کہ ان کے سیاسی تسلسل کا آئینہ دار ہے۔ 2014ءاور 2019ءمیں انتخابات میں اس نے کامیابی حاصل کی حالانکہ وہ 2002ءمیں گجرات فسادات میں انگنت مسلمانوں کے وحشیانہ قتل کا ماسٹر مائنڈ تھا۔ اس سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت نام نہاد سیکولرریاست سے صرف ہندو ملک بننے کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔جمہوری اقدار کے دعویدار بھارت کی ریاست مہارشٹرا میں ایک شہری نے ایک مسلمان ڈیلوری بوائے کو دروازے سے لوٹا دیا۔ اس سے ڈیلوری محض اس لئے نہیں لی گئی کیونکہ وہ مسلمان ہے۔اس سے پہلے میرٹھ کے ایک کینسر اسپتال نے مسلمانوں کو یہ کہہ کر داخل کرنے سے انکار کردیا تھا کہ انہیں کورونا وائرس سے محفوظ ہونے کا دستاویزی ثبوت پیش کرنا ہوگا۔ بھارتی صحافی رکشا کمار نے انکشاف کیا ہے کہ دہلی پولیس نے گزشتہ 24 گھنٹوں میں جامعہ ملیہ کے 6 طلبہ کو پرانے الزامات کے تحت گرفتار کیا ہے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مضمون میں بھارتی ویب سائٹ دی وائر کی ایڈیٹر سدھارتھ ورداراجن نے کورونا وائرس سے متعلق مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیزی کو بھارت میں تعصب اور جبر کی وبا قرار دیتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس سے متعلق مسلمانوں کے خلاف نریندرمودی حکومت کے جھوٹ کا پردہ چاک کرنیوالے آزاد صحافیوں پر راتوں رات جھوٹے کیسز بنائے جارہے ہیں اور انہیں دھمکایا جارہا ہے ۔ بھارتی ویب سائٹ ’اسکرول ان‘ نے اپنی رپورٹ میں مسلمان مخالف ایسی 69 جھوٹی وڈیوز کی نشاندہی کی ہے، جس میں مسلمانوں کو بھارت میں کورونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی گئی ہے، جس کا میڈیا اسکینر نامی تنظیم نے سراغ لگایا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے