بھارت کی ریاست منی پور میں قبائلوں اور غیر قبائلیوں کے دوران ہونے والی ہنگامہ آرائی میں متعدد گرجا گھر اور درجنوں مکانات کو آگ لگادی گئی جس پر فوج طلب کرکے 8 اضلاع میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ مکانات میں درجنوں افراد کے جھلس جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔ پولیس قبائلی اور غیر قبائلی آبادیوں کے فسادات کو روکنے میں مکمل طور پرناکام رہی۔بد امنی کی وجہ منی پور کی غیر قبائلی آبادیوں کا یہ مطالبہ ہے کہ ا±نہیں قبائلی درجہ دیا جائے تاکہ ا±ن کی آبائی زمینوں، ثقافت اور شناخت کو قانونی تحفظ مل سکے۔ منی پور میں میٹ آئی نامی غیر قبائلی افراد اکثریت میں ہیں، ا±ن کا کہنا ہے کہ غیر ریاستی تارکین وطن کی وجہ سے ا±ن کی زمینوں اور حقوق خطرے میں ہیں۔ اس مطالبے کے خلاف منی پور کے قدیم قبائلیوں کی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں۔ اسی احتجاج کے دوران منی پور میں فسادات شروع ہوئے۔ ریاست میں فوج کو طلب کرکے 5 روز کے لیے انٹرنیٹ سروس معطل اور اجتماعات پر پابندی لگادی گئی۔بھارتی ریاست منی پور میں حکومتی کریک ڈاو¿ن کے باعث احتجاجی مظاہرے شدت اختیار کر گئے۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندی نے بربادی پھیلا رکھی ہے۔ نہ مسلمان محفوظ نہ عیسائی محفوظ نہ سکھ محفوظ اور نہ نچلی ذات کا ہندو محفوظ۔ ہر عام شہری اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ دنیا بھر کے آزاد ماہرین اور میڈیا کی رپوٹیں اس بات کی تصدیق کررہی ہیں کہ بھارت میں ہندو انتہا پسندی دنیا کے امن کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ اپنے آپ کو دنیا بھر میں سیکولر ریاست کے طور پرپیش کرنے والے بھارت میں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی میں بھارت دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ جہاں گائے کے گوشت کو لے کر اب تک کئی افراد کو بیدردی اور درندگی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ مذہبی اقلیتوں پر تشدد، ان سے ناروا سلوک زبردستی مذہب کی تبدیلی اور ان کو خوف وہراس کا نشانہ بنانا کوئی نئی بات نہیں۔ اس حقیقت کو آشکار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ اس کا ذمہ دار بھارت کا غیر مستعد عدالتی نظا م ہے جہاں ان قوانین کو عمل پیرا نہ کروانے میں حکومتی سرکار ملوث ہے۔ اسکے باوجود بھارت دنیا کے سامنے سیکولر ملک ہونے کا دعوی کرتا ہے۔ بھارت کی سیاسی جماعتیں اور میڈیا دنیا کے سامنے اقلیتوں کو ان کے حقوق کی فراہمی کا پرچار کرتی ہیں جبکہ پاکستان کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہاں اقلیتوں کو انکے بنیادی حقوق فراہم نہیں کیے جا رہے۔ حقوقِ انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت ملک میں اظہارِ رائے کی آزادی اور مذہبی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔تنظیم کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی ورلڈ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت میں حکومت کے ناقد سول سوسائٹی کے گروپوں کو نہ صرف فنڈنگ کی بندش بلکہ بڑھتی ہوئی پابندیوں کا بھی سامنا ہے۔بھارت میں اقلیتوں کی نسل کشی پر اکسانے والی ہندوتوا کانفرنس کیخلاف مودی سرکار کی مسلسل خاموشی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ مودی سرکار کا شدت پسندانہ رویہ تمام اقلیتوں پر حملہ ہے۔ ایسے عزائم علاقائی امن کیلئے حقیقی خطرہ ہیں۔ مودی سرکار کے سائے میں ہندوتوا جتھے مذہبی اقلیتوں پر حملہ آور ہیں۔ مودی سرکار کے شدت پسندانہ عزائم علاقائی امن کیلئے حقیقی خطرہ ہیں۔ مودی سرکار کے یہ شدت پسندانہ عزائم ہمارے علاقائی امن کیلئے ایک جیتا جاگتا اورحقیقی خطرہ ہیں۔بھارت کی حکمران جماعت کی ترجیحات بالکل واضح ہیں۔ وہ انتہا پسند ہندو ووٹ لے کر برسر اقتدار آئی ہے۔ اس حلقہ اثر کو برقرار رکھنے کےلئے بی جے پی کو کسی نہ کسی سطح پر پاکستان کے خلاف مخالفت کی فضا برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست چونکہ نفرت اور مذہبی انتہا پسندی سے عبارت ہے، اس لئے وہ اسے انتخابی ہتھکنڈے کے طور پر اختیار کرتی ہے۔ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک نہ صرف وہاں کی اقلیتوں اور پڑوسی ممالک بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی شدید تشویش کا باعث ہے۔ انتہائی تشویش ہے کہ آر ایس ایس سے متاثرہ بی جے پی حکومت کی امتیازی اور مسلم مخالف پالیسیاں اور عمل بدستور برقرار ہیں یہاں تک کہ کووڈ 19 کے وبائی امراض کے پھیلاو¿ کے باوجود مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے منظم مہم ابھی بھی جاری ہے جس سے ان پر مزید تشدد کا اندیشہ ہے۔ بھارت عالمی معاملات میں زیادہ بڑا رول ادا کرنے کا خواہش مند رہا ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی مختلف مواقع پر اس کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں لیکن وہ ملک میں بھی اور بیرون ملک بھی انسانی حقوق کے حوالے سے بھارت کے کمزور ریکارڈ کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس قدم اٹھانے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت میں مذہب کی بنیاد پر عدم برداشت بڑھ چکی ہے، اقلیتوں میں سخت عدم تحفظ پایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ہندو اپنی ثقافتی انتہاپسندی کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور صورتحال خطرناک ر±خ اختیار کر رہی ہے۔ بھارت میں موجودہ ذہنیت کو قانونی اور اخلاقی طور پر چیلنج کئے جانے کی ضرورت ہے۔ یہاں اکثریتی طبقے ( ہندوﺅں) کو ہی بھارت کا اصل نمائندہ قرار دیا جاتا ہے اور تمام عالمی تنظیموں کو اس تناظر میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔