بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر ناگپور17ویں صدی کے مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیرکے مقبرے کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والے ہندوتوا گروپ کے احتجاج کے دوران قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف مظاہرے کئے گئے اور شہر میں ہنگامے شروع ہو گئے۔پرتشددجھڑپوں کے دوران متعدد افراد زخمی ہوئے جس کے بعد حکام نے شہر کے کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیاہے۔
ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپیں پیر کو شہر کے وسطی حصے میں ہوئیں، پتھراﺅ کیا گیا، دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور متعدد گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا۔ جائے وقوعہ کی ویڈیوز میں جلتی ہوئی گاڑیوں اور بکھرے ہوئے ملبے کو دکھایا گیا ہے۔مسلم گروپوں نے کہا ہے بشمول وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل سمیت ہندوتوا تنظیموں کے ارکان نے سنبھاجی نگر میں اورنگ زیب کے مقبرے کو ہٹانے کے مطالبے کے حق میں احتجاج کے دوران قرآنی آیات والے جھنڈے کو نذر آتش کیا۔مظاہرے کے دوران ایسی اطلاعات پھیل گئیں کہ قرآن کو نذر آتش کیا گیا ہے جس سے مسلم کمیونٹی کے ارکان میں غم و غصہ پھیل گیا۔ صورتحال اس وقت کنٹرول سے باہر ہو گئی جب احتجاج کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں جس کے بعد مسلمانوں نے سڑکوں پر نکل کر زبردست احتجاج کیا۔ ناگپور کے کئی حصوں بشمول محل، کوتوالی، گنیش پیٹھ اور چٹنیس پارک میں مسلمانوں نے زبردست احتجاجی مظاہرے کئے۔مہاراشٹرا پولیس کے ایک سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق اورنگ آباد میں اورنگ زیب عالمگیرکے مقبرے کو ہٹانے کے مطالبے کے بعد ہونیوالی کشیدگی کے باعث ناگپور شہر کے متعدد علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔پندرہ سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے ، جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ پولیس نے 20 افراد کو حراست میں لے لیا۔
کانگریس کے رہنما ہرش وردن نے فسادات کا ذمہ دار ریاستی حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ کئی روز سے ریاستی وزرا اشتعال انگیز اور لوگوں کواکسانے والی تقاریرکررہے تھے۔ مہاراشٹرا کے وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس نے ایک ویڈیو پیغام میں تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قانون اور امن و امان کی بحالی کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
بھارت میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کی 26 آیات کو حذف کرنے کے حوالے سے وسیم رضوی نامی ایک شخص کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں دائر کردہ درخواست کے خلاف بھارت کے مختلف حصوں میں مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ تمام مسالک کے مسلمان مذہبی اور سیاسی رہنماو¿ں نے عام مسلمانوں سے صبر و تحمل سے کام لینے کی اپیل کی ہے۔ لکھنو¿ کے رہائشی اور اتر پردیش شیعہ وقف بورڈ کے سابق چیئرمین وسیم رضوی نے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں ایک درخواست میں مطالبہ کیا تھا کہ قرآن کی ان چھبیس آیات کو اس مقدس کتاب میں سے ہٹایا جائے، جو ان کے بقول ’دہشت گردی کو فروغ دینے میں معاون‘ بنتی ہیں۔
ماہرین قانون نے تاہم اسے بھارتی شہریوں کو حاصل آئینی حق کا غلط استعمال کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ درخواست گزار کی سختی سے سرزنش کرتے ہوئے اسے سزا بھی سنا سکتی ہے۔سپریم کورٹ کے سابق رجسٹرار جنرل جسٹس سہیل اعجاز صدیقی کا کہنا ہے، ‘عدالت عظمیٰ پہلی نظر میں ہی اس پٹیشن کو خارج کر دے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آئینی حق کا غلط استعمال کرنے پر سپریم کورٹ وسیم رضوی پر بھاری جرمانہ عائد کر دے اور ان کی سرزنش بھی کرے کیونکہ اس طرح کا سارا کھیل بالعموم بدعنوانی کے کیسز میں قانونی شکنجے سے بچنے اور فیشن کے طورپر سکیورٹی حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔’وسیم رضوی نے اس کیس میں کئی درجن مسلم سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتوں، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے علاوہ تقریباً ایک درجن حکومتی وزارتوں، سرکاری محکموں اور اداروں کو فریق بنایا ہے۔
بھارت کے کئی مسلم رہنماو¿ں کا کہنا ہے کہ وسیم رضوی نے ملک میں فتنہ پھیلانے کی جو کوشش کی ہے، اس کے باعث ان کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔بھارتی مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر اور معروف دینی درس گاہ ندوة العلماءلکھنو¿ کے مہتمم مولانا رابع حسنی ندوی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ’فتنہ انگیزی‘ کو روکنے کے لیے سخت کارروائی کرے کیونکہ اس سے بھارت اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور ملک کا ماحول بھی خراب ہو رہا ہے۔برصغیر کے معروف دینی ادارے دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابوالقاسم نعمانی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ نفرت اور بدامنی پھیلانے کی کوشش کرنے والے ایسے عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جانا چاہیے کیونکہ ایسے عناصر سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
مجلس علمائے ہند کے جنرل سیکرٹری ا ور معروف شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد نقوی کا کہنا تھا، ‘وسیم رضوی اسلام دشمن ہیں اور ان کا شیعیت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ متعصب اداروں اور اسلام دشمن تنظیموں کے آلہ کار ہیں۔ ان کو مسلکی عناد بھڑکانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔’
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ وسیم رضوی کی طرف سے دائر کردہ درخواست ایک بڑی سازش ہے اور وسیم رضوی کو اس کے لیے آلہ کار بنایا گیا ہے۔ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی نیا تنازعہ کھڑا ہو جائے اور عوام کی توجہ کسانوں کی تحریک سے اور مہنگائی کی طرف سے ہٹ جائے۔اس تنازعے کے خلاف بھارت کے مختلف حصوں میں مظاہرے بھی ہو رہے ہیں۔ کئی مقامات پر وسیم رضوی کے خلاف پولیس میں کیس بھی درج کرائے جا چکے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو اپنے طور پر ان کے سر کی قیمت بھی لگا دی ہے۔
دوسری طرف ہندوو¿ں کا ایک طبقہ وسیم رضوی کی حمایت میں آگیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی زبردست حمایت کی جا رہی ہے اور انہیں ’سب سے بڑا دیش بھکت‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی حفاظت کے لیے حکومت سے مطالبات بھی کیے جانے لگے ہیں۔
کالم
بھارت میں قرآن پاک کی بے حرمتی
- by web desk
- مارچ 27, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 25 Views
- 5 دن ago
