کالم

بھارت ۔بڑھتے امریکی تحفظات !

یہ امر انتہائی توجہ کا حامل ہے کہ کرٹ کیمبل جو کہ امریکی انڈو پیسیفک کوآرڈینیٹر ہےں انہوں نے رواں ہفتے میں کہا ہے کہ ہندوستان اگرچہ امریکہ کا ایک قریبی شراکت دار ہے لیکن وہ کبھی بھی امریکہ کا دوست نہےں بن سکتا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت کو محض اپنے مفادات سے غرض ہے اور بھارت دوسرے ممالک میں جاسوسی اور دہشت گردی جیسی گھناﺅنی وارداتوں میں بھی ملوث ہے اس لےے ایسا ملک بھلا کسی کا اتحادی کیسے ہو سکتا ہے۔کرٹ کیمبل کا مزید کہنا تھا کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی تمام قراردادوں کی کشمیر میں اور بھارتی پنجاب میں خلاف ورزی کی ہے، اتنی خلاف ورزیاں کرنے والا امریکہ یا کسی بھی ملک کا اتحادی کہلانے کے مستحق نہیںکیوں کہ بھارت نے اپنے ملک میں مقیم اقلیتوں بلخصوص مسلمانوں اور سکھوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی ہے علاوہ ازیں بھارت گرگٹ کی طرح اپنا ڈپلومیٹک بلاک تبدیل کرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ قطعاً بھروسے کے قابل نہیں۔ا س ضمن میں کئی ماہرین نے یہ بھی کہا ہے اگر امریکہ کی ہی بات کی جائے تو بھارت کی جانب سے جعلی کمپنیوں کے قیام ذریعے امریکیوں کو کروڑوں ڈالرز کا نقصان پہنچایا گیا۔ یہاں یہ امر قدرے حوصلہ افزا ہے کہ امریکی میڈیا ہندوستان میں غیر جمہوری طریقوں، اقلیت مخالف اقدامات، پریس کی آزادی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کر نا شروع ہو گیا ہے اور ان مسائل پر امریکہ اور ہندوستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت امریکہ کا قابل اعتماد اتحادی نہیں ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ وہ وقت دور نہےں جب بہت جلد امریکی پالیسی ساز بھی ان ایشوز پر بھارت کے خلاف بولنا شروع کر دیں گے۔یہ امر خصوصی دلچسپی کا حامل ہے کہ بھارت اور امریکہ دونوں اچھے تعلقات رکھتے ہیںاور اس حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی، فرہنگی، اقتصادی، اور دفاعی تعاون موجود ہے۔تجارتی لحاظ سے، بھارت اور امریکہ دونوں دوسرے کے بڑے تجارتی شریک ہیں۔ امریکہ بھارت کا 2 سرا بڑا تجارتی شریک ہے، جبکہ بھارت امریکہ کا 9واں بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ علاوہ ازیں دونوں ملکوں کے درمیان مختلف تجارتی روابط ہیں، مثلاً ٹیکنالوجی، صحت، اور دفاعی صنعت کے شعبے میں کافی کام ہو رہا ہے ۔ یہ بات خاصی اہمیت کی حامل ہے کہ بھارت کے ممتاز صحافی اور اینکر ”سدھیر چوہدری “ نے چار ہفتے قبل اپنے پروگرام میں امریکہ پر کافی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی فضائیہ نے امریکہ سے انتہائی مہنگاMQ-9 ڈرون(بغیر پائلٹ کے چلنے والا طیارہ) لیز پر لیا ہے اور یہ اتنا خطرناک ڈرون ہے کہ اب تک امریکہ نے کسی بھی ملک کو یہ طیارہ نہےں دیا ماسوائے بھارت کے اور وہ بھی لیز پر دیا ہے ۔یہاں اس امر کا تذکرہ بےجا نہ ہو گا کہ ایک ماہ قبل روس نے جو بیش قیمت MQ-9 ڈرون ’Black Sea“ میں ڈبویا تھا وہ بھی بالکل یہی قسم تھی۔ کسے معلوم نہےں کہ اقتصادی لحاظ سے بھی امریکہ بھارت کو مالی اور تکنیکی امداد فراہم کرتا ہے اور اسی ضمن میں امریکہ نے بھارت کےلئے مختلف ڈیفنس اور دیگر اداروں کےلئے مالی اور تکنیکی امداد فراہم کی ہے۔یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہےں کہ گزشتہ 20برسوں میں بھارت اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں کافی قربت پیدا ہوئی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگاکہ بھارت اور امریکی حکومتیں خود کو ایک دوسرے کی تجارتی ،دفاعی اور سٹریجٹک ساتھی قرار دیتی نہےں تھکتیں لیکن اگر زمینی حقائق پر سرسری سی بھی نگاہ ڈالیں تو یہ امر پوری طرح واضح ہو جاتا ہے کہ درحقیقت بھارت امریکہ دونوں ہی ایک دوسرے کی بابت شدید قسم کے عدم اعتماد کا شکار ہےں جس کی وجہ سے امریکی انتظامیہ بھارتی حکومت کے حوالے سے عجیب قسم کی کش مکش میں مبتلا ہے ۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سنجیدہ سفارتی ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ یوں کہ دنیا کا ہر چھوٹا بڑا ملک اپنے ریاستی مفادات کو ہی سامنے رکھ کر ہی سارے معاملات طے کرتا ہے مگر اس ضمن میں بھارت ایک خاص تاریخ کا حامل ہے جس کی ہمیشہ سے یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ اپنی روایتی ریا کاری اور چالاکی سے کام لیتے ہوئے اپنے تمام پڑوسی ممالک کو محض ”استعمال“کرئے ۔اس معاملے کی تازہ ترین مثال یوکرین اور روس کی حالیہ جنگ ہے جس میں ایک جانب بھارت نے بڑی مہارت سے روس کو یہ تاثر دےے رکھا کہ وہ روس کےساتھ ہے اور اسی پس منظر میں اس نے روس سے سارے مفادات بھی حاصل کر رکھے ہےں لیکن اس کے باوجود بھارت نے بڑی کامیابی سے یوکرین روس جنگ میں غیر جانبدار ی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ۔ایسے میں توقع کی جانی چاہےے کہ عالمی برداری کی موثر قوتیں اس امر کا ادارک کریں گی کہ دہلی کا حکمران گروہ نہ تو کسی اخلاقی ضابطے کا پابند ہے اور نہ ہی کسی روایت کو ،مانتا ہے کیوں کہ پوری بھارتی فلاسفی اس امر کی مظہر ہے کہ وہ صرف طاقت یا خوف کی زبان سمجھتی ہے ۔ان کے نزدیک صرف وہ شے احترام کے قابل ہے کہ جو یا تو کسی کو نفع پہنچا سکے پھر نقصان پہنچا سکے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے