کالم

بہار مرزا یا تلوار مرزا یعنی جبار مرزا

دارالحکومت اسلام آباد مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں آباد ایک ننھا سا شہر ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے ایک طرف ٹیکسلا کے آثار ہیں تو دوسری طرف نو آباد شہر اسلام آباد ،کہ معاملات ریاست و سیاست میں جس کی حکمت عملی عموما ٹیکسلا کے راجہ امبھی کی حکمت عملی سے ملتی جلتی رہتی ہے ۔مارگلہ کی پہاڑیاں بہت زیادہ بلند و بالا تو نہیں ہیں ، لیکن انہی پہاڑیوں کے دامن میں صحافت، سیاست ،ثقافت، ادب ، اور دانش کا ایک بلند و بالا پہاڑ "جبل جبار مرزا "اپنی شان و شوکت اور پوری قامت کے ساتھ استادہ اور نمایاں نظر آتا ہے۔ جبار مرزا حضرت کا ذاتی نام ہے ،سید ضمیر جعفری نے انہیں "بہار مرزا” قرار دے رکھا ہے جبکہ ڈاکٹر عبد القدیر خان انہیں "تلوار مرزا ” کے صفاتی نام سے یاد رکھتے تھے۔ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ جبار مرزا کا رشتہ ذاتی دوستی ، گہرے تعلق اور دوطرفہ التفات و مروت پر بنیاد کرتا تھا۔جبار مرزا ڈاکٹر عبد القدیر خان کے مشکل ترین دنوں میں بھی ان کے ساتھ منسلک اور ملتفت رہے۔ملک کے غیر متنازعہ مگر معتوب ہیرو ڈاکٹر عبد القدیر خان جبار مرزا پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب حکومت وقت کی طرف سے ڈاکٹر عبد القدیر خان کی سخت نگرانی کی جاتی تھی اور ان کے دوست اور ملنے والے بھی پرچہ نویسوں کے تفکر و تردد کا عنوان بنے رہتے تھے۔ لیکن جبار مرزا ہر چیز سے بے نیاز جو صحیح سمجھتے ، جسے حق پر خیال کرتے ،اس کا ہر طرح سے ساتھ دینے پر یقین رکھتے ہیں ، وہ کسی نفع نقصان کی بجائے صرف راست باز "انسان "کو ترجیح دینا پسند کرتے ہیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ جبار مرزا حالت امن میں اگر قلم ہوتے ہیں، تو حالت جنگ میں ایک تلوار۔لیکن میرے نزدیک جبار مرزا اسلام آباد کے مارگلہ پہاڑی سلسلے کے بیچوں بیچ استادہ بلند و بالا "جبل جبار مرزا” ہیں۔ ان کی خصوصی دلچسپی کے کئی عنوان ہیں،لیکن ان سب میں سے بے لوث محبت ،حب وطن ، ڈاکٹر عبد القدیر خان اور سید ضمیر جعفری نمایاں تر ہیں۔سید ضمیر جعفری جبار مرزا کی علمی توجہ ، ذاتی تعلق اور فراواں محبت کے عنوانات میں سے ایک عنوان ہے ۔سید ضمیر جعفری نے جس محبت اور جس جذبے سے اسلام آباد شہر کی تعمیر میں حصہ لیا تھا ،اسی خلوص اور محبت سے جبار مرزا نے اسلام آباد شہر کی تعبیر و توضیح کی ہے۔ سید ضمیر جعفری کے احوال اور آثار پر جو مصادر جبار مرزا نے جمع کیئے ہیں ،وہ انہی سے خاص ہیں ۔ وہ سید ضمیر جعفری کی نجی زندگی کے مشاہد اور راز دار رہے ہیں۔یہی حقیقت جبار مرزا کو مطالعات ضمیر جعفری کا ماہر و محقق بناتی ہے۔ دراصل جبار مرزا کا دل ایک عاشق کا ، دماغ ایک سنجیدہ تجزیہ نگار کا اور قلم ایک مورخ کا ہے ، جبار مرزا کے پاس انسانوں کے دل و دماغ کو جان لینے اور جانچ لینے کا ہنر ہے ۔ جبار مرزا نے اپنی تحریروں میں کیپٹن ضمیر جعفری کی قوت کار کی بھرپور تصویر کشی کی ہے۔ سید ضمیر جعفری پر ایسا مواد اور ایسی معلومات اورکہیں دستیاب نہیں ہیں ۔سید ضمیر جعفری پر لکھنا جبار مرزا کی تخصیص ہے، سید ضمیر جعفری سے ذاتی تعلق اور قربت انتہا کی تھی ،لیکن ایک اور بات یہ ہوئی ،اور یہ بھی جبار مرزا کے ساتھ مخصوص سمجھیئے کہ وہ صرف قلم سے نہیں لکھتے، ان کی تحریر کا معاون اول ان کا دل ہوتا ہے۔ سید ضمیر جعفری پر لکھتے ہوئے ان کا دل دماغ اور قلم یک جا اور یک جان ہو جاتے ہیں ، ضمیر جعفری پر ان کی ہر تحریر کمال کی تحریر ہوتی ہے۔پڑھ کر پڑھنے والا بے اختیار ہوجاتا ہے ، کیسا اسلوب ہے ،کیا انداز ہے ، ان کے آہنگ میں درد و غم کی کیا آمیزش ہے یوں لگتا ہے کہ جبار مرزا اردو کے ایک بڑے مزاحیہ شاعر کے الم کے راز دار رہے ہیں۔ ۔یہ سوچتے ہی میر تقی میر کی آواز کانوں میں گونجنے لگی؛
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا
سید ضمیر جعفری اپنی خوش بیانی کو ذومعنی جملے میں بدلنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے تھے اور اس میں اپنے سمیت کسی کو بھی رخصت نہیں دیتے تھے۔وہ اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن ون کی گلی نمبر 33 کے مکان نمبر 23 میں رہتے تھے۔مکان کے باہر یعنی گیٹ کے ستون پر جلی حروف میں "کاشانہ بلبل” لکھا ہوا تھا .یہ مکان برطانیہ میں مقیم معروف شاعر بلبل کاشمیری کا تھا،اور سید ضمیر جعفری اس میں رہتے تھے۔ایک بار مجھے رخصت کرنے اپنے مکان کے گیٹ تک آئے،اور دیر تک کھڑے باتیں کرتے رہے ،پھر اچانک کاشانہ بلبل پر نظر پڑی،پہلے مسکرائے ،پھر کھلکھلا کر ہنس پڑے اور زوردار ہنسی کے ساتھ ہلتے ہوئے کہنے لگے دیکھو یہ دیکھو کاشانہ بلبل میں ہاتھی رہتا ہے اور پھر بلند آہنگ قہقہہ گونجنے لگا۔سید ضمیر جعفری کا ہر جملہ ان کی بذلہ سنجی اور خوش گفتاری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔وہ لطافت و ظرافت سے بھرپور جملے اکثر کہا کرتے تھے ۔حال کے بعض بزرگ ادیبوں (جو آج سے تیس پینتیس سال پہلے جوانی کی راہوں سے گزر رہے تھے) کے بارے میں ان کے بے ساختہ جملے اس بات کی عمدہ گواہی پیش کرتے ہیں۔ایسی پر مزاح بات پر اولین قہقہہ لگانے والے بھی وہ خود ہوتے تھے ۔سید ضمیر جعفری صورت حال میں سے مزاح کشید کرنے، بیان کرنے اور اس سے لطف لینے کا ہنر جانتے تھے۔زندگی کے ہر مسلے اور منزل کا انہوں اسی سہولت ، مزاح اور مزے کے ساتھ سامنا کیا۔وہ تو پریشانی تک کو ہنسنے اور قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتے تھے۔ سید ضمیر جعفری پر لکھنا جبار مرزا پر منتہی ہے۔ایسی معلومات اور کس کے پاس ہیں ، ایسا پردرد قلم کون اپنی تحویل میں رکھتا ہے۔ جبار مرزا کی تازہ تالیف "مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف: سید ضمیر جعفری” اپنی ہمہ پہلو معنویت اور کمال درجے کی حشر سامانیوں سمیت ایک عالم کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔سید ضمیر جعفری کی اس سے اچھی یاد نگاری اور کیا ہو گی،ذکر ہو اردو مزاح کے کمانڈر ان چیف کا اور پھر بیان ہو جبار مرزا کا ،تو پھر بیان اور انداز بیان میں بلندی تو خود بخود پیدا ہو جائے گی۔ ایسی خوش گفتار اور سبک رفتار کتاب کو دیکھ ،سن اور پڑھ کر مجھے ہمارے مشترکہ ممدوح سید ضمیر جعفری کا روزنامہ نوائے وقت میں 6 جون 1980 کو شائع ہونے والا کالم یاد آگیا ۔ یہ کالم جبار مرزا کے اولین شعری مجموعے "مرحلے” کی اشاعت کے حوالے سے تھا ۔یاد رہے کہ یہ ہمارے جبار مرزا صاحب کے آغاز شباب کا دور تھا ۔ جبار مرزا کی شخصیت ، ہنر ،سلیقے اور فن کے حوالے سے سید ضمیر جعفری کا یہ کالم اپنے اسلوب اور مواد کے اعتبار سے اس قابل ہے کہ اس کے مطالعے کو تازہ کیا جائے۔مکمل کالم اب اس تالیف کا حصہ بن چکا ہے۔اس کالم میں سید ضمیر جعفری لکھتے ہیں کہ ” ہمارے دوست جبار مرزا خوش وضع ، خوش سلیقہ اور خوش خلق نوجوان ہیں۔۔۔۔راولپنڈی میں آج تک چھپنے والی کتابوں میں ان کی کتاب اپنے حسن جمال میں سب سے الگ ، پری چہرہ کتاب ہے ۔ حسن کاری اور حسن آرائی سے ان کی طبعیت کے گہرے لگا کی وجہ سے ، جبار مرزا کو بہار مرزا کہنا کچھ غلط نہ ہوگا ۔” مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف :سید ضمیر جعفری کی اشاعت میں بھی سید ضمیر جعفری کے "بہار مرزا” کی حسن کاری اور حسن آرائی اپنے عروج پر نظر آ رہی ہے۔ سید ضمیر جعفری کے حوالے سے نادر تفصیلات و معلومات کے خزانے یعنی اس کتاب کی ایسی محبت بھری اشاعت جہاں جبار مرزا کے مفاخر میں اضافہ کر رہی ہے ،وہیں سید ضمیر جعفری کے حوالے سے بہت ساری نئی اور نادر تفصیلات و دستاویزات بھی سامنے لا رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے