کالم

تار تار کپڑے

سُنتے آرہے ہیں، دیکھتے آ رہیں ہیں، کہ ریاست ماں ہے یا ماں جیسی ہوتی ہے۔ یعنی ماں کی طرح اپنے بچوں کا خیال رکھتی رہتی ہے، دکھ درد کا احساس رکھتی، ہر ممکن اپنے بچوں کو محفوظ رکھتی ہے اُنکے مرنے تک، ایک ماں اپنی اولاد کیلئے جب عملاً کچھ کر گزرنے سے رہ بھی جائے تو ہر وقت اپنے بچوں کے صحتمندی کی اور مصائب سے بچے رہنے کی دُعائیں اپنے رب سے مانگتی رہتی ہے۔ کچھ ایسے بھی اپنے ماں کے نافرمان دیکھے ہیں، جو جوان ہوکر اپنے ماں کی شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتے، لیکن وہی ماں اُسی نافرمان بیٹے کو اپنی آخری ہچکیوں میں اُسکے لیے دُکھی اور فکر مندی میں بلآخر اِس دُنیا سے ہی رخصت ہو جاتی ہے، کہ نجانے میرا بیٹا کیسے ہوگا، کہیں بیمار، کہیں بھوکا تو نہ ہوگا، سونے کا ٹھکانہ نصیب ہوا ہوگا کہ نہیں لیکن جب ریاست ماں سوتیلی ہو یا سوتیلی بن جائے یا بنا دی جائے، تو پھر اُس ریاست ماں کے بچوں کا کیا حال ہوگا، اگر کسی نے دیکھنا ہے، تو ہماری پاکستانی ریاست ماں کو دیکھ لے۔ جو مکمل طور پر ہمارے لیے سوتیلی ماں بن چکی ہے۔ اِسے اِس سے اب کوئی غرض نہ رہی، کہ میرے بچوں پر آجکل کیا کیا ظلم ڈھ رہے ہیں۔ غم تب بھی نہ ہوتا کہ پاکستانی ریاست ماں کے یہ لاڈلے اپنے بیٹے ہوتے، ہم یہ سوچ کے ہی صبر کر لیتے، کہ چلے ماں کے لاڈلے ہیں، لیکن ہیں تو ہمارے ہی بھائی، دل بڑا کر لیتے، کہ چلے ہم نہ سہی ہمارے سگے دوسرے بھائی تو خوش و خُرم ہیں، دُکھ اِس بات کا ہے، کہ ہماری ریاست ماں نے یہ لاڈلے انگریزوں سے گود لیے ہیں اور ہماری ریاست ماں نے ہمارے حصے کا دودھ روزِ اول سے پلا کر اِنہیں پروان چڑھایا، یہ تو دودھ پیتے پیتے ہٹے کٹے جوان ہوگئے اور ہم لاغر، کمزور اور بے بس بن کر سوتیلے بچوں کی طرح آج بھی جی رہے ہیں، بلک رہے ہیں۔اب اگر ہم اپنی ریاست ماں سے پیار کری بھی تو کس بنیاد پر ،تعلیم و صحت کی توجہ سوتیلوں جیسی دی گئی، کوئی مارے دھتکارے ظُلم کرے، انصاف نہ ملے، ہماری ریاست ماں کو کوئی پرواہ نہیں، آج خورد و نوش، ضروریات زندگی، بجلی، گیس،تعلیم و صحت، قانون و انصاف اِن کمزور و لاغر بچوں کے پہنچ سے بہت دُور ہے اور اِس ماں کے لاڈلے اتنے بدمست کہ گھر کے باہر لان میں بھی بڑے بڑے ائیرکنڈیشنڈ لگائے دیگر لاڈوں کیساتھ گپیں اور نجانے کیا کچھ کرتے رہتے ہیں۔ اِن لاڈلوں کے اخراجات کا سارا بوجھ ہر ماہ اِنہی لاغر اور کمزور بچوں کے کاندھوں پر ڈالا جاتا ہے۔ ہمیں تو ڈر ہے، کہ کل کلاں اگر ریاست ماں کے سوتیلے پن سے عاجز آکر اِسکے دھتکارے ہوئے بچے سر بہ کفن ہو کر اپنا حق، اپنا حصہ مانگنے ریاست ماں کے سامنے کھڑے ہوکر گستاخی کرنے پر اُتر آئے، تو کیا انگریزوں سے گود لیے بچے، اپنی ماں کی شانِ گستاخی پر سامنے کھڑے ہو پائیں گے ؟پہلی فرصت میں ٹکٹ کٹا کے اپنی نسل میں یا اپنے پرانے آقاو¿ں سے جاملیںگے۔ تب اے ماں تیرے یہ ستا ئے ہوئے بچے تیرا کیا کریںگے سوچا ہے کبھی ڈر ہے کہ خُدا نخواستہ کہیں غصے میں آکر کہیں کچھ کر نہ ڈالیں۔ دُکھ تو ہوگا، لیکن کیا کریں۔ ویسے ماں ایک طرح سے قصور تیرا بھی نہیں ہے، سوتیلا، سوتیلا ہی ہوتا ہے، کاش تیرے زور آور بچوں نے تُجھے اِنہی لاغر، غریب، کمزور اور تُجھ سے جنون کی تمام حدیں پار کرنے والے کسی بیٹے کے سپرد کیا ہوتا، تو آج یہ حال تیرے بچوں کا نہ ہوتا اور نہ ہی آج تُو دُنیا کے سامنے تار تار کپڑے پھاڑے کھڑی ہوتی۔ افسوس آج تک تیرے زور آور بچوں کو نہ عقل آئی اور نہ ہی تیرے کمزور اور لاغر بچوں میں کوئی شعور آیا۔ کاش تیرے آغوش میں تب آقاو¿ں سے مراعات یافتہ بچے نہ رکھے جاتے، کاش تُو نے اُسوقت اِنہیں سینے سے نہ لگایا ہوتا، تو آج تیرے آغوش میں، تیرے آنگن میں تیرے یہ بچے خوش و خرم کھیل کود رہے ہوتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri