حکومت کی جانب سے سانحہ جڑانولہ کے متاثرین کی امداد کا سلسلہ بدستور جاری وساری ہے ، وفاق ہی نہیں پنجاب کی نگران حکومت بھی مسیحی خاندانوں کو نقد رقوم کی ادائیگی کے علاوہ ان کے تباہ حال گھروں اور عبادت گاہوں کو ماضی سے بہتر انداز میں بحال کرنے میں پیش پیش ہے ، سانحہ جڑانوالہ کے فورا بعد حکومت و عوام کا جس طرح کا بھرپور درعمل آیا اسے بلاشبہ قابل تحسین کہا جاسکتا ہے، ایک بات طے ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت اقلیتوں کے وجود کو نہ صرف دل وجان سے قبول کرتی ہے بلکہ ان کی خوشحالی اور بہتری کی بھی خواہش مند ہے، اس پس منظر میں سانحہ جڑانوالہ کے متاثرین کی بحالی سے زیادہ اہم یہ ہے کہ مستقبل میں ایسے دالخراش واقعات کا موثر انداز میں تدراک کیا جاسکے، بظاہر درپیش معاملہ کے دو پہلو ہیں جن میں سے ایک تو حکومت سے متعلق ہے جبکہ دوسرے میں خالصتا زمہ داری عوام کی ہے، یقینا حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان مشکوک افراد پر کڑی نگاہ رکھے جو عوام کےمذہبی جذبات کا استحصال کرکے انفرادی اور گروہی مفادات کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں، دوسری بات یہ کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مذہبی معاملات میں کسی ایک فریق کا ساتھ دینے سے تائب رہنے کی پالیسی پر سختی سے کاربند رہنا ہوگا، اس تجویز پرغور کیا جارہا ہے کہ مذہبی تنازعات سے نمٹنے والے افسران اور اہلکاروں کو نفیساتی طور پر ایسا مضبوط بنایا جائے کہ وہ ہر حال میں اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں، اس کی ضرورت یوں ہے کہ چونکہ پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے چنانچہ ایسے میں جب کسی اقیلتی برداری سے تعلق رکھنے والے فرد پر شعائر اسلامی کی توھین کرنے کا الزام لگتا ہے تو اہل اسلام کے جذبات کا مشتعل ہونا ہرگز خارج ازمکان نہیں، اب تک اقلیتوں کے خلاف سامنے آنےوالے واقعات جو چیز حوصلہ افزا ہے وہ یہ ہر واقعہ میں پرتشدد کاروائیاں سامنے نہیں آئیں، اس کی مثال حال ہی میں اس خاتون کی گرفتاری کا بھی ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا اور پولیس اسے پرامن انداز میں گرفتار کرنے میں کامیاب رہی، اس ضمن میں دوسرا بڑا چیلنج عام آدمی کی تربیت ہے، لوگوں کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ بطور پاکستانی شہری آپ مذہبی، اخلاقی اور قانونی طور پر پابند ہیں کہ کسی قسم کی پرتشدد کاروائیوں کا حصہ نہیں بنیں گے، مثلا قرآن میں خالق کائنات سورة المائدہ میں فرماتا ہے کہ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر خوب قائم رہنے والے، انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جا¶ اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں ہرگز اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو ۔ ”اس ضمن میں ہمارے مذہبی،سیاسی اور سماجی رہنماوں کو عام لوگوں کو تسلسل کےساتھ یہ باور کروانا ہوگا کہ قانون ہاتھ میں لینے سے نہ تو اسلام کی کوئی خدمت ہوگی اور نہ ہی اس سے پاکستان کےلئے کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہو گا، تشویشناک ہے کہ حالیہ سالوں میں عام شہریوں کی جانب سے ”مجرموں” کو ازخود سزا دینے کے واقعات میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے،ہونا تو یہ چاہے کہ اگر کوئی جرم کرتے رنگے ہاتھوں گرفتار ہوتا ہے تو اسے فورا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کیا جائے، بلاشبہ وطن عزیز کا نظام عدل وسیع پیمانے پر اصلاحات کا متقاضی ہے، یہ ایسی حقیقت ہے کہ ہمارے عدالتی نظام سے وابستہ افراد بھی برملا اس کا اعتراف کرتے ہیں، زیادہ پرانی بات نہیں جب نامزد چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ نے ایک تقریب کے دوران عدالتی سسٹم بارے ہال میں براجمان افراد سے ان کی رائے پوچھی تو کسی ایک شخص نے بھی نظام انصاف پر اطمینان کا اظہار نہ کیا،اب ایسے اعتراضات اپنی جگہ مگر معاشرے میں کسی خاص عوام کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ خود ہی عدالت قائم کرے اور خود اس میں فیصلے دے، بادی النظر میں سانحہ جڑانوالہ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا، اقلتیوں کے حوالے سے جو پہلو ہمیں فراموش نہیں کرنا وہ تحریک پاکستان میں اقلیتوں کا کلیدی نوعیت کا کردار ہے، مثلا 1931 میں دوسری گول میز کانفرنس کے دوران متحدہ ہندوستان میں اقلیتوں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کےلئے سر آغا خان کی قیادت میں معاہدہ عمل میں لایا گیا جو تاریخ پاک وہند میں اقلیتوں کا معاہدہ کہلاتا ہے، مذکورہ معاہدے میں مسلم لیگ کی طرف سے سر آغا خان، شیڈول کاسٹ کی طرف سے ڈاکڑ بھیم راو میڈکر،ہندوستانی اینگلو کی طرف سے راو بہادر پاتیر سلوان اور یورپی مسیحوں کی طرف سے سر ہنری گڈنی اور سرہربرٹ نے دستخط کیے تھے، مورخین اس معاہدے کو تحریک آزادی کے دوران اقلیتوں کی مشترکہ جدوجہد سے تعبیر کرتے ہیں، کانگریس کے برعکس مسلم لیگ کی جانب اقلیتوں کے جھکاو کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہےکہ جب 22 دسمبر 1939 میں اونچی ذات کے ہندو کی پالیسوں کے خلاف قائد اعظم نے کانگریسی وزارتوں سے مسلمان نمائندوں کے مستعفی ہونے پر یوم نجات منایا تو کانگریس اس پر حیران ہوئی کہ یوم نجات منانے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ پارسی، مسیحی سمیت دیگر اقلیتوں کے لاکھوں افراد بھی شریک تھے۔