کالم

ترقی اور صحت مند زندگی ۔۔۔!

دنیا بھر میں صحت کو انسانی حقوق کی فہرست میں وہی مقام حاصل ہے جو زندگی کو حاصل ہیکیونکہ صحت مند زندگی ہی اصل زندگی ہے۔ بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک میں صحت کی سہولیات کا حال انتہائی دگرگوں ہے۔ ہمارے ملک میں آبادی کے لحاظ سے ہسپتالوں کی تعداد نہایت کم ہے۔ دیہی علاقوں میں تو بعض اوقات پورے تحصیل یا ضلع میں ایک بھی معیاری ہسپتال موجود نہیں ہوتا۔ شہری علاقوں کی صورتحال نسبتا بہتر ہے لیکن وہاں پر بھی گنجان آبادی کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا رش ناقابلِ برداشت ہوچکا ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں داخل ہونے سے پہلے ہی مریض کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایمرجنسی وارڈز میں بیڈز کی کمی، ادویات کا فقدان، صفائی کی ناگفتہ بہ صورتحال، ناتجربہ کار عملہ اور سب سے بڑھ کر ڈاکٹروں کا غیر سنجیدہ رویہ مریضوں کی تکالیف میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ عام آدمی جب اپنے پیاروں کو درد میں تڑپتا دیکھتا ہے تو مجبورا پرائیویٹ ہسپتال کا رخ کرتا ہے، جہاں پیسوں کے بغیر زندگی کی کوئی قدر نہیں۔پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکوں کا کردار آج کل کسی کاروباری مافیا سے کم نہیں۔ ایک عام سا چیک اپ بھی ہزاروں روپے میں کیا جاتا ہے۔ ادویات اور لیبارٹری ٹیسٹ کی قیمتیں اس قدر بڑھا دی گئی ہیں کہ متوسط اور غریب طبقے کے لیے ان کا بوجھ اٹھانا تقریبا ناممکن ہوگیا ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں ادویات کی قیمتوں میں 1000 فیصد سے زائد اضافہ ہو چکا ہے۔ جو دوا پہلے 10 روپے میں دستیاب تھی، اب وہی دوا 300 یا 400 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔یہ سوال ذہنوں میں ابھرنا بالکل فطری ہے کہ کیا صحت کا حق صرف ان کے لیے ہے جن کے پاس پیسہ ہے؟ کیا غریب کو جینے کا حق نہیں؟حکومت وقت نے جس طرح تعلیمی اداروں کو پرائیویٹ کرنے کی پالیسی اپنائی ہے، اب وہی پالیسی صحت کے شعبے میں بھی نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہسپتال بھی پرائیویٹ کررہے ہیں تو یہ ملک صرف امیروں کا ملک بن جائے گا۔ غریب عوام علاج کی استطاعت نہ ہونے کے باعث مرنے کو ترجیح دیں گے۔یہ حقیقت ہے کہ نجی ادارے کبھی بھی عوامی فلاح کا ہدف نہیں رکھتے، ان کا اولین مقصد منافع خوری ہوتا ہے۔ صحت جیسے حساس شعبے کو پرائیویٹ کرنا معاشرتی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک جیسے کینیڈا، ناروے، سویڈن، فن لینڈ، اور حتی کہ برطانیہ جیسے ملکوں میں صحت کی سہولیات مکمل طور پر ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہیں۔ وہاں پر علاج مفت ہوتا ہے اور ہر شہری کو مساوی معیار کی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ یہی ماڈل اگر ہمارے ملک میں بھی اپنایا جائے تو امیر اور غریب ایک ہی ہسپتال میں، ایک ہی ڈاکٹر سے علاج کرا سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف طبقات کا فرق کم ہوگا بلکہ عوام کا ریاست پر اعتماد بھی بڑھے گا۔حکومت عوام سے ہر شے پر ٹیکس وصول کرتی ہے۔ تنخواہ سے لیکر بجلی، گیس، موبائل فون، پٹرول، اور یہاں تک کہ کھانے پینے کی اشیا پر بھی بھاری ٹیکس عائد کیے گئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر ان ٹیکسوں کا فائدہ کہاں ہے؟ جب تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں بھی مفت مہیا نہیں کی جاتیں تو پھر عوام کس چیز کے لیے ٹیکس دے رہے ہیں؟حکمرانوں کا کام صرف تقریریں کرنا نہیں بلکہ عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔یہ بات کہ نجی ہسپتالوں اور کلینکوں پر مکمل پابندی لگا دی جائے، بظاہر ایک سخت اقدام معلوم ہوتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ ہی واحد راستہ ہے جس سے صحت کی سہولیات کو عام اور یکساں بنایا جا سکتا ہے۔ اگر تمام ڈاکٹروں کو پابند کیا جائے کہ وہ صرف سرکاری ہسپتالوں میں کام کریں، ان کے معاوضے بڑھائے جائیں اور سہولیات بہتر بنائی جائیں تو چند سالوں میں ہی اس شعبے میں انقلابی بہتری آسکتی ہے ۔ سارے مسائل کے حل کے لیے ایک قابلِ عمل خاکہ پیش خدمت ہے۔درج ذیل کچھ عملی تجاویز دی جا رہی ہیں جن پر عملدرآمد کر کے صحت کے شعبے کو بہتر بنایا جا سکتا ہے:1. سرکاری ہسپتالوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ،تحصیل اور ضلع میں کم از کم دو جدید سہولیات سے آراستہ ہسپتال قائم کیے جائیں۔2. ڈاکٹروں اور نرسنگ سٹاف کی بھرتی اور تربیتی شعبہ ناگزیر ہے، طب میں افرادی قوت کی کمی کو دور کرنے کے لیے فوری بھرتیاں کی جائیں اور تربیتی پروگرامز متعارف کروائے جائیں۔3. ادویات کی قیمتوں پر کنٹرول دوا ساز کمپنیوں کو ریگولیٹ کیا جائے اور ضروری ادویات کی قیمتیں حکومت طے کرے۔4. نجی ہسپتالوں کو قومی تحویل میں لیا جائے تمام بڑے نجی ہسپتالوں کو مرحلہ وار سرکاری نظام میں شامل کیا جائے۔5. ہیلتھ کارڈ اور مفت علاج کی سہولت ہر شہری کو قومی ہیلتھ کارڈ فراہم کیا جائے جو ہر سرکاری ہسپتال میں مفت علاج کی ضمانت دے۔6. شفاف نگرانی کا نظام ہسپتالوں کی کارکردگی کو مانیٹر کرنے کے لیے خود مختار نظام قائم کیا جائے تاکہ کرپشن اور بدانتظامی پر قابو پایا جا سکے۔
آئین ہر شہری کو مساوی حقوق فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ صحت اور تعلیم وہ شعبے ہیں جنہیں کمرشلائز نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بلا امتیاز ان بنیادی سہولیات سے مستفید کرے۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پرائیویٹ ادارے مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کی جڑ ہیں۔ اصل حل ریاست کی جانب سے مکمل اور سنجیدہ کوشش اور عمل ہے۔ ایک صحت مند معاشرہ ہی ترقی یافتہ معاشرہ کہلاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے، تو سب سے پہلے ہمیں اپنے شہریوں کو صحت مند زندگی دینا ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے